ملک بھرکے مختلف علاقوں میں سیلابی صورت حال سے ہزاروں متاثرین بے گھر

0
22

ملک کے مختلف حصوں میں جہاں ایک جانب بارشوں اور سیلابی ریلوں نے تباہی مچارکھی ہے وہیں بھارت کی جانب سے اضافی پانی چھوڑے جانے سے درجنوں دیہات زیر آّب آچکے ہیں۔**

ڈیرہ غازی خان

نجی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق تونسہ شریف میں سیلاب سے دو افراد جاں بحق، جب کہ متعدد زخمی ہوئے- سیلاب اور بارشوں کے دوران گیارہ ہزار سے زائد کچے اور پکے گھروں کو نقصان پہنچا-

متاثرہ علاقوں سے چار ہزار افراد کو ریسکیو کرکے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ تاحال حکومت امداد کے منتظر ہیں، تنکا تنکا جوڑ کر بنائے جانے والے گھر زمین بوس ہوگئے ہیں۔ ہم کھلے آسمان تلے آگئے ہیں، فصلیں سڑک سب تباہ ہوگئے، جب کہ گزر بسر کا آسرا مویشی بھی سیلابی پانی میں بہہ کر مرگئے۔

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں سے سیلابی پانی اترنے کے بعد نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے سروے شروع کر دیا گیا ہے، جلد بحالی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔

نارووال سے خانیوال

بھارت کی جانب سے دریائے راوی میں چھوڑے گئے تریسٹھ ہزار کیوسک سے زائد کا بڑا سیلابی ریلہ پاکستان میں داخل ہوگیا ہے، جس کے باعث نارووال سے خانیوال تک دریا کے کچے کے علاقے متاثر ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

پی ڈی ایم اے کی ہدايت کے برعکس متاثرین نے محفوظ مقام پر منتقل ہونے سے انکار کر ديا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمر بھر کی جمع پونجی کیسے چھوڑ کر جائیں۔

دریائے راوی میں موجودہ پانی کی سطح چالیس سے پچاس ہزار کیوسک تک بلند ہونے کا خطرہ ہے جس سے بچنے کے لئے متوقع متاثرین کا امدادی اداروں سے تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔

دریائے راوی

بھارت کی جانب سے نالہ اوج اور دريائے راوی ميں ايک لاکھ اٹھتر ہزار کيوسک پانی چھوڑا گيا تھا، جس کے بعد بدھ 17 اگست کو دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 51 ہزار 267 ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق دریائے راوی میں پانی کے بہاؤ کی گنجائش ایک لاکھ 50 ہزار کیوسک ہے۔ اس لئے سیلابی ریلے سے کوئی خطرہ نہیں۔

ڈپٹی کمشنر شاہد فرید نے یہ بھی بتایا کہ دریائے راوی میں پانی معمول کے مطابق بہہ رہا ہے، سیلابی ریلے کا بہاؤ کم ہو رہا ہے، بھارت کی طرف سے برساتی نالہ اوج میں 70 ہزار کیوسک پانی آیا تھا، جس کے بعد ممکنہ بڑے سیلابی ریلے سے نمٹنے کیلئے تمام محکمے الرٹ ہیں۔

چنیوٹ

ادھر دریائے چناب میں مرالہ سے آنے والا ايک لاکھ 82 ہزار کیوسک کا ریلا قادر آباد سے ہوتا ہوا چنیوٹ کی حدود میں داخل ہوگیا جس نے مقامی آبادیوں کو ایک بار پھر شدید متاثر کیا ہے۔

ہیڈ مرالہ کے مقام پر 1لاکھ 15 ہزار، ہیڈ خانکی 1لاکھ6ہزار کيوسک پاني موجود ہے۔ جس کے بعد لاہور روڈ اور جھنگ روڈ پر نشیبی بستیوں میں ایک بار پھر بڑا ریلا داخل ہوگیا، جس سے سیکڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی چارہ ، مکئی اور دیگر فصلیں تباہ ہوگئیں۔

پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق بھارت نے اوجھ بیراج سے دریائے راوی میں بڑے پیمانے پر پانی چھوڑا ہے، جو جسار پہنچا۔ بھارت سے آنے والا ایک لاکھ 70 ہزار کیوسک پانی بدھ کو لاہور، شاہدرہ اور نارووال میں پہنچا، جب کہ ایک لاکھ 30 ہزار کیوسک پانی 18اگست کو ساہیوال اور چیچہ وطنی پہنچا۔

ساہیوال

ساہیوال کی ڈپٹی کمشنر صلوات سعید نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ضلع میں 50 سے زائد گھر پانی سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دریائے راوی کے پل سے صرف ایک لاکھ کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش ہے، مگر دریا کے سات گزرگاہیں بند کردی گئی ہیں، جن کو سیلاب سے پیدا ہونے والے نقصانات کم کرنے کے لیے فوری طور پر کھولنے کی ضرورت ہے۔

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ علاقے میں الرٹ جاری کردیا گیا ہے اور علاقہ مکینوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دریا کے کنارے مت جائیں یا پھر اپنے مویشی وہاں نہ چھوڑ دیں جبکہ دریائے راوی کے کنارے یا قریب آباد لوگوں کو بھی علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ ضلع میں قائم ریلیف کیمپوں کی تعداد 11 سے بڑھ کر 20 کردی گئی ہے، اس سے قبل آج محکمہ صحت اور لائیو اسٹاک نے کیمپوں میں ویکسین اور ادویات بھیجی تھیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے دریائے راوی کے لیے سیلاب کی وارننگ جاری کرتے ہوئے تمام متعلقہ محکموں کو خبردار کیا تھا کہ وہ احتیاطی تدابیر یقینی بنائیں تاکہ کسی بھی جانی نقصان اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ منگل 16 اگست کو وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی نے این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری الرٹ کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کی صدارت کی تھی، وزیر اعلیٰ پنجاب نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ دریا کے کنارے آبادی کا انخلا یقینی بنایا جائے۔

اجلاس میں دریائے راوی میں سیلاب کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے لاہور اور سیالکوٹ میں جدید ریڈار لگانے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا، وزیراعلیٰ نے بے گھر افراد کے لیے خیمے، خوراک اور دیگر سامان کی فراہمی کا بھی حکم دیا تھا۔ اس سے قبل، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے تمام محکموں بشمول آب پاشی، خوراک، مواصلات، زراعت، لوکل گورنمنٹ، کمیونٹی ڈیولپمنٹ اور بنیادی اور ثانوی صحت پر نظر رکھنے کے لیے سیلابی الرٹ جاری کیا تھا۔

پی ڈی ایم اے نے فوری طور پر سیلاب کا مقابلہ کرنے اور علاقے میں امدادی ٹیموں کو مطلوبہ مشینری اور آلات کے ساتھ متحرک کرنے، پھنسے ہوئے خاندانوں کے لیے خوراک کے بیگز کی فراہمی، مویشیوں کو نکالنے اور چارے کی فراہمی کا حکم دیا تھا۔

سیلاب الرٹ میں کہا گیا تھا کہ زیادہ تر پسماندہ علاقوں کے رہائشیوں کو جب بھی ضرورت پڑے، ان کو عارضی ریلیف کیمپوں یا محفوظ مقامات پر منتقل کیا جانا چاہیے اور ریلیف کیمپوں میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تیار کھانے کی فراہمی کے لیے ضروری انتظامات یقینی بنایا جائے جبکہ وبائی امراض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے طبی ٹیمیں متاثرہ افراد کو ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے لیے متحرک کردی جائیں۔

بلوچستان

پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان میں بارش اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد دو سو سے تجاوز کرگئی ہے۔

کوہلو اور موسیٰ خیل میں بھی سیلابی پانی درجنوں مکانات کو بہہ کرلے گیا۔ ڈپٹی کمشنر موسیٰ خیل یاسردشتی کے مطابق بارش اور سیلابی ریلے کے باعث نو افراد جاں بحق اور تین زخمی ہوئے، ایک لاپتا شخص کی تلاش جاری ہے۔

کوئٹہ کے علاقے غزہ بند میں گاڑی سیلابی ریلے میں بہہ گئی، حادثے میں خواتین اور بچوں سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوئے۔ متاثرہ افراد کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشين سے ہے۔

نصیرآباد کی ربیع کینال میں سیکڑوں افراد سیلابی ریلے میں پھنس گئے۔ ایف سی نے کشتیوں کی مدد میں متاثرین کو ریسکیو کیا۔

دکی کے نانا صاحب روڈ پر کئی مسافر سیلابی ریلے میں پھنس گئے۔ گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی۔ پی ڈی ایم اے حکام کے مطابق متاثرین کی مدد کے لیے ریسکیو اورریلیف آپریشن جاری ہے۔

آزاد کشمیر

دوسری جانب وادی نیلم میں کلاؤڈ برسٹ کے باعث سیلاب سے رتی گلی کی سڑک کئی مقامات پر بند کردی گئی، جب کہ بیس کیمپ میں بڑی تعداد میں سیاح پھنس گئے۔ سیلاب سے کئی مکانات ، منی پن بجلی گھر سمیت دیگر املاک بھی تباہ ہوئے۔

Leave a reply