کتاب "ملزم جناح حاضر ہو!” پر تبصرہ ، تحریر ذیشان وارث

0
34

عماد بزدار کا "اوفینسو ڈیفنس” "ملزم جناح حاضر ہو!” پر تبصرہ
تحریر :ذیشان وارث

کتاب ابھی ختم کی ہے. سوچا کتاب بارے کچھ خیالات شئیر کر لیے جائیں. یہ بھی ایک آئرنی ہے کہ جب یہ کتاب پڑھی ہے تو دلی سے دل دھلا دینے والی خبریں بھی ساتھ ہی آرہی ہیں. کشمیر کے انسانیت سوز کرفیو کو بھی دو سو روز گزر گئے ہیں.

کشمیری تو خیر جیالے لوگ ہیں. یہ ہندوستان کے مسلمان ہی تھے جو سادہ لوحی اور آزاد کے شخصی سحر میں آکر ہمیشہ سے جناح کو برا بھلا کہتے رہے. خیر اب انکی غلط فہمیاں بھی رفع ہو گئی ہو نگی. اللہ انکے لیے آسانیاں پیدا کرے.

جناح کی شخصیت اور سیاست پر بہت سارے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں. کچھ اعتراضات مگر ایسے ہیں کہ اگر انہیں مان لیا جائے تو پاکستان کا وجود ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے. مثلاً یہ کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہونا چاہئے تھا جہاں سب ملکر رہتے. جناح نے تقسیم کرواکے پتہ نہیں کتنا بڑا ظلم کیا. اس پہلو پہ عماد بزدار نے پورا باب باندھا ہے کہ کس طرح جناح کی تربیت اور سیاست ہی اتحاد اور سیکولرازم کی سیاست تھی. ہندوستان کا آخری شخص جو مزہبی سیاست کے خلاف تھا وہ جناح ہی تھا. مگر پتہ نہیں کیوں ہمارے ہاں لوگ تحریک خلافت میں سادہ لوح لوگوں کے مزہبی جذبات کو بھڑکانے والے اور 37 کی جیت کے نشے میں ہندو فاشزم لانچ کرنے والے گاندھی اور آزاد کو کلین چٹ دے دیتے ہیں.

ایک اور الزام جناح پہ لگایا جاتا ہے کہ وہ انگریز کے ایجنٹ تھے. جناح کی زندگی کا سرسری مطالعہ کرنے والا بھی اس بے سروپا الزام پر یقین نہیں کر سکتا. مگر ہندوستان اور پاکستان کے مزہبی لوگوں میں تعصب، عقیدت اور تقلید یوں کوٹ کوٹ کے بھری ہے کہ جو کچھ منبر سے بیان ہو جائے اسے وحی سمجھ لیتے ہیں. انکا دوسرا مسئلہ سازشی تھیوریوں سے عشق ہے. ایسے لوگ ایجنٹ والے جھانسے میں فوراً آجاتے ہیں. قوم پرست بھی اس مرض میں انکے ساتھ ہی مبتلا ہیں.

سب سے دلچسپ کیس تو ان ارسطو ؤں کا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ گاندھی مسلمانوں کے ساتھ بہت مخلص تھا. حقیقت تو یہ ہے کہ گاندھی صاحب کے ساتھ اگر بھرپور حسن ظن کا مظاہرہ بھی کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے لیڈر تھے اور انہوں نے اپنی قوم کیلئے محنت کی. یہ زیادتی ہے کہ انہیں مسلمانوں کا خیر خواہ قراردیا جائے. چلیں لبرلز کی تو گاندھی سے عقیدت سمجھ آتی ہے. مگر یہ جو خلافتی مولوی ہیں ان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ ان کے گاندھی سے رومانس کی وجہ کیا ہے. کیا انہوں نے گاندھی سے مل کے دجال کے خلاف جہاد کرنا ہے؟

بہرحال گاندھی اینڈ کمپنی کے نظریے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت آج ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار ہے. ان کے پاس بہترین موقع تھا جناح کو شکست دینے کا کہ مسلمانوں کو ایسا ماحول انڈیا میں دیتے کہ پاکستان کا جواز ختم ہو جاتا. مگر یہ انکی بد دیانتی اور ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینے کی جلدی تھی جس نے آج جناح کو سرخرو کیا ہے. جناح کی ذات آج جس قدر سرخرو ہے آج سے پہلے کبھی نا تھی.

اگرچہ کتاب میں مولانا آزاد اور ولی خان بارے بھی لکھا گیا ہے. مگر میں تبصرے میں ان پر الفاظ ضائع نہیں کرنا چاہتا. اس وضاحت کے ساتھ کہ میں مولانا آزاد کی نثر کا دل وجان سے قائل ہوں. ہندوستان کی سیاست میں وہ محض گاندھی کے آلہ کار تھے اور اب اپنی پیش گوئیوں سمیت غیر متعلق ہق چکے ہیں. تاریخ نے انکے ساتھ وہی کیا جس کے وہ مستحق تھے.

آخر میں یہ کہ کتاب میں پروف ریڈنگ کی بہت غلطیاں ہیں. اس کے علاوہ انگلش سے اردو میں جو تراجم کیے گئے ان میں سے کچھ بے ربط معلوم ہوتے ہیں. پھر یہ کہ کتاب کا نداز تحقیقی ہونے کے باوجود لگتا ہے کہ بعض جگہوں پر مصنف جزباتی ہو گئے. گاندھی اور آزاد بارے تحقیر آمیز زبان بھی استعمال ہوئی. یہ کم از کم تحریر میں نہیں ہونا چاہئے. اس کے علاوہ ابواب کے اندر مواد کی ترتیب میں بھی بہتری کی واضح گنجائش موجود ہے جو کہ غالباً ایڈیٹر کی کمی کا پتہ دیتی ہے. امید ہے آئندہ ایڈیشن میں ممکنہ حد تک ان چیزوں میں بہتری کر لی جائے گی.

اس کے علاوہ یہ کہ اگرچہ عماد نے قائد اعظم کو کوئی مزہبی مسیحا ثابت نہیں کیا جو کہ اچھی بات ہے مگر قائدِاعظم کی شراب نوشی وغیرہ کو ڈیفنڈ کرنے کو کوشش کی گئی ہے. میرے خیال سے جو حقائق ہیں انہیں تسلیم کر لینا چاہئے. اللہ انکی لغزشوں کو معاف کرے کہ شراب نوشی وغیرہ بہرحال دھوکہ دھی، نفرت پرستی اور خدا فروشی جیسے گناہوں کے مقابلے میں چھوٹے گناہ ہیں.

سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے مؤثر انداز میں جناح اور پاکستان کا مقدمہ لڑنے اور پہلا ایڈیشن اتنی سرعت سے نکلنے پر عماد بھائی کو مبارکباد.

Leave a reply