مقامِ دل تحریر : نعمان ارشد

0
23

قرآن پاک میں مومنوں کے حق میں فرمایا

ترجمہ

"ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللّٰه کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں تو ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب پر ہی بھروسہ کریں”

قرآن و سنت کی روشنی میں یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ذکرِ الٰہی اور یادِ اللّٰه سے انسان کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے- اسی ذکر کی بدولت انسان کے دل میں بغض و حسد کا غبار مٹ جاتا ہے اور اس کے دل سے غفلت و شقاوت کے پردے اٹھ جاتے ہیں۔ ظلالت و گمراہی کے اندھیرے دور ہو جاتے ہیں۔ فسق و فجور کی گرد اڑ جاتی ہے۔ بدی اور نافرمانی کی تاریکیاں مٹ جاتی ہیں۔ خواہشات نفسانی اور حرص و ہوا کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں اور جس کسی انسان کے دل سے یہ تمام عوارض گناہ و معصیت مٹ جائیں تو اس کا دل نور ایمان سے منور ہو جاتا ہے۔ اس کے سینے میں حقیقت اور معرفت کی شمع روشن ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر ایقان و عرفان کے چراغ جل اٹھتے ہیں اور پھر اس کا دل تجلیاتِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔ 

کسی انسان کے کفر و ایمان کا دارومدار بھی زبان اور دل پر ہے۔ کیوں کہ زبان اقرار کرتی ہے اور دل تصدیق کرتا ہے۔ اس لیے تو اللّٰه تعالٰی نے کافروں کے حق میں فرمایا

"اللّٰه نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں اب کوئی حق بات ان کے دلوں میں نہیں جاتی ۔ ”

ایمان والوں کے پاس جب اللّٰه کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دلوں پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے یعنی دل کانپ جاتے ہیں اور محبتِ اللّٰه میں تڑپ اٹھتے ہیں۔  

ایک مقام پر اللّٰه نے فرمایا

"جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللّٰه کے حضور حاضر ہوا سلامتی والا دل کے کر”

قلبِ سلیم وہی دل ہے جو حسد و بغض اور حرص و ہوا، گناہ و معصیت اور لالچ اور خواہشاتِ نفسانی سے پاک ہو۔ محبتِ اللّٰه سے بھرپور اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے لبریز ہو۔ نورِ دین و ایمان سے منور ہو۔ جس دل سے اللّٰه پاک کے انوار و تجلیات کا نزول ہو وہی قلبِ سلیم کہلاتا ہے۔ 

حضرت قاضی ثناء اللّٰه پانی پتیؒ فرماتے ہیں کہ : سلیم سانپ کے ڈسے ہوئے کو کہتے ہیں۔ جب بندے کو سانپ ڈستا ہے تو بندہ تڑپ جاتا ہے۔ اسی طرح قلبِ سلیم وہ ہوتا ہے کہ جس کے سامنے محبوب کا ذکر آئے اور وہ ڈسے ہوئے بندے کی طرح تڑپ جائے۔ قرآنِ پاک میں انسان کے دل کی مختلف کیفیات بیان کی گئی ہیں۔ یعنی کہ ایمان اور کفر کا مرکز بھی دل ہے۔ نیکی اور بدی کا سرچشمہ بھی دل ہے۔ حق و باطل کا مرکز بھی دل ہے اور عشق و محبت کا منبع بھی یہی دل ہے۔ اس لیے مولانا رومؒ نے فرمایا

از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

دل گزرگاہ جلیلِ اکبر است

ہزاروں کعبوں سے انسان کا ایک دل بہتر ہے کیوں کہ یہ جلیل کی گزرگاہ ہے۔ 

اس کو اقبالؒ فرماتے ہیں

در دل مسلم مقام مصطفیٰ است

عشق کا مقام بھی دل ہے اور عقل کا مقام بھی دل ہے کیوں کہ عشق والا دل اپنے محبوب حقیقی کی ہر ادا سے پیار کر کے اس کے قدموں میں اپنا سر نیاز جھکا دیتا ہے اور عقل والا دل انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر بھی انکار کر کے اکڑ جاتا ہے۔ عشق والا دل غارِ ثور میں زہریلے سانپ سے ڈنگ پر ڈنگ کھاتا ہے اور جنبش تک نہیں کرتا کہ کہیں محبوبِ پاک ﷺ کے آرام میں خلل نہ آ جائے۔ عقل والا دل اپنی مٹھی میں کنکریوں سے کلمہ پڑھنے کی آواز سن کر بھی نہیں مانتا۔ عشقِ اللّٰه کی رضا پر اپنے بچے کو قربان کر کے خود نیزے پر چڑھ جاتا ہے اور عقل والا دل قربان ہونے والے پر تنقید کر کے دنیا و آخرت کی لعنت خرید لیتا ہے۔ 

‎@Official__NA

Leave a reply