شامتِ کفر و شیاطین, مراد رسول اللہ و ہمارے لاڈلے عمر بن خطاب رض!!! تحریر بلال شوکت آزاد

0
60

شامتِ کفر و شیاطین, مراد رسول اللہ و ہمارے لاڈلے عمر بن خطاب رض!!! تحریر بلال شوکت آزاد

آہ کہ آج ہی وہ دن ہے جب عالم اسلام کے زوال کی پہلی کیل امت مسلمہ کے تابوت میں ٹھونکی گئی۔ ۔ ۔ سازشوں اور بغاوتوں کے پیچیدہ جال بنے گئے۔ ۔ ۔ آہ کہ آج ہی کے دن چودہ سو سال پہلے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کے دو زمینی وزیروں میں سے بچے آخری وزیر, صحابی رسول اللہ اور ایک شہزادے حکمران, سردار امت اور خلیفہ راشد و امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو بے رحمی سے خنجروں کے وار سے شہید کردیا گیا۔

عمر رضی اللہ تعالی عنہ کون تھے؟

کیا تھے؟

آئیے ان کی مختصر سیرت کو پڑھیے اور عش عش کریں کہ وہ عمر رض ہمارے تھے اور ہیں, الحمدللہ۔

ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی:

ابو حفص عمر بن خطاب عدوی قرشی ملقب بہ فاروق (پیدائش: 586ء تا 590ء کے درمیان مکہ میں- وفات: 6 نومبر، 644ء مدینہ میں) ابو بکر صدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خسر اور تاریخ اسلام کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔

عمر بن خطاب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، ان کا شمار علما و زاہدین صحابہ میں ہوتا تھا۔ ابو بکر صدیق کی وفات کے بعد 23 اگست سنہ 634ء مطابق 22 جمادی الثانی سنہ 13ھ کو مسند خلافت سنبھالی۔

عمر بن خطاب ایک باعظمت، انصاف پسند اور عادل حکمران مشہور ہیں، ان کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا، عمر بن خطاب کا یہ عدل و انصاف انتہائی مشہور ہوا اور ان کے لقب فاروق کی دیگر وجوہ تسمیہ میں ایک وجہ یہ بھی بنی۔

عمر بن خطاب ہجری تقویم کے بانی ہیں، ان کے دور خلافت میں عراق، مصر، لیبیا، سرزمین شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار اور تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔

عمر بن خطاب ہی کے دور خلافت میں پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا۔ عمر بن خطاب نے جس مہارت، شجاعت اور عسکری صلاحیت سے ساسانی سلطنت کی مکمل شہنشاہیت کو دو سال سے بھی کم عرصہ میں زیر کر لیا، نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت اور دیگر امور سلطنت کو جس خوش اسلوبی اور مہارت و ذمہ داری کے ساتھ نبھایا وہ ان کی عبقریت کی دلیل ہے۔

نام ونسب:

عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزّٰی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوّیٰ بن فہربن مالک۔ جبکہ والدہ کا نام خنتمہ تھا جو عرب کے مشہور سردار ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں۔

آپ کا لقب فاروق، کنیت ابو حفص، لقب و کنیت دونوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ آپ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ عمر عدی کی اولاد میں سے ہیں۔

ابتدائی زندگی:

آپ مکہ میں پید ا ہوئے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تھے۔ علم انساب، سپہ گری، پہلوانی اور مقرری میں آپ طاق تھے۔

” عمراور ان کے باپ اور ان کے دادا تینوں انساب کے بہت بڑے ماہر تھے ۔“

” آپ عکاظ کے دنگل میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ “

جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو عمر نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے عمر نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے۔

ہجرت:

ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارا نہیں کیا۔ آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا

” تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہو جائے اس کے بچے يتيم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے۔”

مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔ مواخات مدینہ میں قبیلہ بنو سالم کے سردار عتبان بن مالک کوآپ کا بھائی قراردیا گیا۔

غزوات نبوی میں شرکت:

عمر رض مندرجہ ذیل غزوات و واقعات میں شریک رہے۔

غزوۂ بدر
غزوہ احد
غزوہ خندق
بیعت الرضوان اورصلح حدیبیہ
غزوہ خیبر
فتح مکہ
غزوہ حنین
غزوہ تبوک
حجۃ الوداع

خاص واقعات:

وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ وہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ

"اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ بیت المال سے لوگوں میں تقسیم ہونے والے اس حصے سے زیادہ ہے جو دوسروں کو ملا تھا۔”

تو عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ

"مجمع میں میرا بیٹا عبد اللّٰہ موجود ہے”,

عبداللّٰہ ابن عمر کھڑے ہو گئے۔ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ

"بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔”

عبداللّٰہ نے بتایا کہ

"بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔”

ابن سعد فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن امیر المؤمنین کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز گزری۔ بعض کہنے لگے یہ باندی عمر کی ہے۔ آپ ( عمر) نے فرمایا کہ

"امیر المؤمنین کو کیا حق ہے وہ خدا کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لیے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔”

مزید برآں یہ کہ جب آپ کسی بزرگ کو عامل بنا کر بھیجتے تھے تو یہ شرائط سنا دیتے تھے:

گھوڑے پر کبھی مت سوار ہونا۔
عمدہ کھانا نہ کھانا۔
باریک کپڑا نہ پہننا۔
حاجت مندوں کی داد رسی کرنا۔

اگر کوئی اس کے خلاف ہوتا تو عمر رض سزائیں دیتے, تادیب کرتے۔

عادات:

حضرت عمر رض, حضرت علی رض سے بھی دیگر صحابہ کی طرح مشورہ کرتے چنانچہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عمر کی شہادت کے بعد جب علی آئے تو فرمایا

"میں اس کے نامہ اعمال کے ساتھ اللہ سے ملوں۔”

حدیث میں ذکر:

ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:

عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔”

شہادت:

ایک فارسی (رافضی) غلام ابو لولو فیروز نے آپ کو فجر کی نماز میں مسجد نبوی میں خنجر سے حملہ کیا اور تین جگہ وار کیے۔ آپ ان زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کے بعد اتفاق رائے سے عثمان رض کو امیر المومنین منتخب کیا گیا۔

فضائل:

” اے عمر! شیطان تم کو دیکھتے ہی راستہ کاٹ جاتا ہے۔“

” جبرائیل و میکائیل میرے دو آسمانی وزیر ہیں جب کہ ابوبکر و عمر میرے دو زمینی وزیر ہیں۔ “

” میری امت میں اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے سخت عمر ہیں۔ “

” میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔“

اہل بیت سے مروی فضائل:

ٌ*علی رض سے روایت ہے کہ [أن عمر لیقول القول فینزل القرآن بتصدیقہ]۔

"بیشک عمر فاروق البتہ جب کوئی کہتے ہیں تو قرآن اُن کی بات کی تصدیق کے لیے نازل ہوتا ہے۔”

*فضل بن عباس رض سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا [عمر معنی وأنا مع عمر،والحق بعدی مع عمر حیث کان ]۔

"میں عمر رضکے ساتھ ہوں اور عمررض میرے ساتھ ہیں اور حق میرے بعد عمر رض کے ساتھ ہو گا۔”

* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ [ نظر رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- إلى عمر ذات يوم وتبسم، فقال: "يابن الخطاب، أتدري لم تبسمت إليك?” قال: اللہ ورسولہ أعلم، قال: "إن اللہ -عز وجل- نظر إليك بالشفقة والرحمة ليلة عرفة، وجعلك مفتاح الإسلام]۔

"رسول اکرم ﷺ نے عمر فاروق رض کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا اور فرمایا اے ابن خطاب !کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کی طرف دیکھ کر تبسم کیوں فرمایا تو عمرفاروق رض نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا :اللہ تعالی نے آپ کی طرف عرفہ کی رات رحمت اور شفقت سے نظر فرمائی اور آپ کو مفتاح اسلام (اسلام کی چابی) بنایا۔”

* علی رض سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا [عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة]۔

"عمر فاروق اہل جنت کے سردار ہیں”

جب عمر فاروق تک یہ بات پہنچی تو آپ ایک جماعت کے ساتھ علی کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ

"کیا آپ نے رسول اکرم ﷺ سے سُنا ہے کہ عمر فاروق اہل جنت کے چراغ ہیں”

علی رض نے جواب دیا

"جی ہاں”

عمر فاروق رض نے فرمایا

"آپ مجھے یہ تحریر لکھ دیں”

تو علی رض نے لکھا,

[بسم اللہ الرحمن الرحيم: هذا ما ضمن علي بن أبي طالب لعمر بن الخطاب عن رسول اللہ -صلى اللہ عليہ وسلم- عن جبريل عن اللہ تعالى أن عمر بن الخطاب سراج أهل الجنة]

عمر فاروق نے یہ تحریر لے کر اپنی اولاد میں سے ایک بیٹا کو دی اور فرمایا

[إذا أنا مت وغسلتموني وكفنتموني فأدرجوا هذہ معي في كفني حتى ألقى بها ربي، فلما أصيب غسل وكفن وأدرجت مع في كفنہ ودفن]

"جب میرا وصال ہو جائے تو مجھے غسل وکفن دینا اور پھر یہ تحریر میرے کفن میں ڈال دینا یہاں تک میں اپنے رب سے ملاقات کروں۔”

جب آپ وصال فرما گئے تو آپ کو غسل اور کفن دیا گیا اور آپ کے کفن میں وہ تحریر رکھ کر دفن کر دیا گیا۔

* کثیر ابو اسماعیل سے روایت ہے کہ میں نے نے ابو جعفر محمد بن علی سے ابو بکر اور عمر فاروق کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا

[ بُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ نِفَاقٌ، وَبُغْضُ الْأَنْصَارِ نِفَاقٌ۔ يَا كَثِيرُ مَنْ شَكَّ فِيهِمَا، فَقَدْ شَكَّ فِي السُّنَّةِ]

"ابوبکر ، عمر فاروق اور انصار کا بغض نفاق ہے۔ اے کثیر جس نے ان دونوں حضرات کے بارے میں شک کیا اس نے سنت میں شک کیا”

* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا

[اللَّهمّ أعزّ الإسلام بأبي جهل بن هشام أو بعمر بن الخطّاب]

"اے اللہ اسلام کو ابو جہل بن ھشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے۔”

تو عمر فاروق رض نے صبح کی اور رسول اکرم ﷺ کے پاس آ گئے۔

* ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

[وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ، وَوَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ ]

* علی سے روایت ہے

[ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” يَا عَلِيُّ، هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ، إِلا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ "، ثُمَّ قَالَ لِي: ” يَا عَلِيُّ، لا تُخْبِرْهُمَا ]

کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا پس ابو بکر وعمر م تشریف لائے تو نبی اکرم ﷺ نے مجھ سے کہا

"اے علی رض یہ دونوں اہل جنت کے اولین وآخرین کے بوڑھی عمر والوں کے سردار ہیں انبیاومرسلین کے علاوہ”

پھر مجھے کہا کہ

"اے علی ،تم ان دونوں کو اس بات کی خبر نہ دینا۔”

* ابن عباس سے فرماتے ہیں

[أَكْثِرُوا ذِكْرَ عُمَرَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا ذَكَرْتُمُوهُ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ، وَإِنْ ذَكَرْتُمُ الْعَدْلَ ذَكَرْتُمُ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى]

"عمر فاروق کا کثرت کے ساتھ ذکر کیا کرو جب تم ان کا ذکر کرتے ہوتو تم عدل کا ذکر کرتے ہو اور جب تم عدل کا ذکر کرتے ہو تو تم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہو۔”

عمر بن خطاب اور اقوالِ عالَم:

” میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتے۔ از محمدصلی اللہ علیہ وسلم۔“

”اگر دنیا کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں اور عمر کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو عمر کا پلڑا بھاری ہوگا۔ از عبداللہ بن مسعود“

”عمر کی زبان پر سکینہ بولتا ہے۔ وہ قوی و امین ہیں۔ از سیدنا علی رض“

” بوبکر و عمر تاریخِ اسلام کی دوشاہکار شخصیتیں ہیں۔ ایچ جی ویلز”

عمر فاروق رض کو سب سے بہترین خراج تحسین مغربی مورخ و مصنف مائیکل ہارٹ نے پیش کیا کہ ان کی شہرہ آفاق تصنیف سو عظیم آدمی یا "The Hundred” میں پہلا نمبر حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم کو دیا جبکہ پہلے 25 عظیم انسانوں میں حضرت عمر فاروق رض کو شامل کیا اور وہ اس کتاب میں کچھ یوں رقمطراز ہے کہ

’’حضرت عمرؓ کی کامیابیاں موثٔر ثابت ہوئیں۔ حضرت محمدؐ کے بعد فروغ اسلام میں حضرت عمرؓ کا نام نہایت اہم ہے۔حضرت عمرؓ کی تیز رفتار فتوحات کے بغیر شاید آج اسلام کا پھیلاؤ اس وسیع پیمانے پر ممکن نہ تھا۔ مزید یہ کہ ان کے دور میں مفتوح ہونے والے علاقوں میں سے بیشتر عرب تمدن ہی کا حصہ بن گئے۔ظاہر ہے کہ ان تمام کامیابیوں کا اصل محرک تو حضرت محمدؐ ہی تھے لیکن اس سارے عمل میں حضرت عمرؓ کے کردار کو نظر انداز کرنا بھی ایک بڑی غلطی ہو گی…‘‘

یہ اعلی ظرف غیر مسلم مگر حق پرست مصنف مائیکل ہارٹ آگے لکھتا ہے کہ

’’ایسی عظیم وسعت حضرت عمرؓ کی شاندار قیادت کے بغیر ممکن نہیں تھی…‘‘

چونکہ مائیکل ہارٹ نے جو کتاب سو عظیم آدمی لکھی اسمیں انفرادی عظمت رفتہ ماپنے کا پیمانہ وسیع تھا مطلب حضرت آدم سے لیکر موجود صدی تک کے سو عظیم آدمی جن میں آپسی تقابل بھی کیا گیا اور تاریخ انسانی پر ان کے مرتب اثرات کا عمیق اور غیر جاندار نظروں سے مشاہدہ کیا گیا اور پھر یہ تصنیف پیش کی جس میں ایک اور جگہ مائیکل ہارٹ نے اور فاتحین سے عمر فاروق رض کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ

’’ وہ تمام فتوحات جو عمرؓ کے دورِ خلافت میں واقع ہوئیں اپنے حجم اور پائیدار ی میں ان فتوحات کی نسبت کہیں اہم تھیں جو سیزر یا چارلی میگنی کے زیرِ قیادت ہوئیں۔‘‘

واللہ پڑھیں اور جانیں کہ ہم کن اسلاف کی بہترین سیرت اور تربیت کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے دنیا میں خجل ہورہے ہیں لیکن استفادہ نہیں لے رہے۔

آپ ؓکی سرکاری مہر پر لکھا تھا،

’’عمرؓ !نصیحت کے لئے موت ہی کافی ہے‘‘

آپ ؓ کے بنائے ہوئے نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں پوری دنیا میں نافذ ہیں اور ان کو "عمر لاء” سے منسوب کرکے ایک الگ انفرادی اور اہم حیثیت دیکر عزت دی گئی ہے۔

مسندِ خلافت سنبھالتے ہی آپؓ نے مسجدِ نبوی شریف میں خطبہ ارشاد فرمایا

’’ اللہ رب العزت نے میرے رفقاء کو مجھ سے جدا کر کے ، مجھے باقی چھوڑ کر میرے ساتھ تمہیں اور تمہارے ساتھ مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے ،اللہ کی قسم! میں تمہاری ہر مشکل کو حل کروں گا اور دیانت و امانت کو کسی صورت بھی ہاتھ سے نہ جانے دوںگا، تمہارا ہر آدمی میرے نزدیک اُس وقت تک کمزور ہے جب تک میں اُس سے حق نہ وصو ل کر لوں ، یا اللہ ! میں سخت ہوں مجھے نرم بنا ، کمزور ہوں قوت عطا فرما، سخی بنا۔‘‘ (طبقات، ج ۳ص ۷۳)

آئیے فاروقِ اعظم ؓ کی عجز و انکساری کی دیکھتے ہیں ، خلیفتہ المسلمین و امیر المومنین منتخب ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ خطاب کے لئے منبر پر تشریف لائے تو اُس سیڑھی پر بیٹھ گئے جس پر یارِ غار حضرت صدیقِ اکبر ؓ اپنے پائوں مبارک رکھتے تھے ، صحابہ کرام ؓ نے فاروقِ اعظم ؓسے عرض کی

’’ اے امیر المومنین ! اُوپر بیٹھ جائیں ، فاروقِ اعظم ؓ نے فرمایا ۔’’ میرے لئے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر بیٹھنے کو جگہ مل جائے جہاں حضرت ابو بکر صدیق ؓ اپنے پائوں مبارک رکھتے تھے ۔‘‘

حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ہر فرد کو تنقید اور طلبِ حقوق کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔ایک دفعہ آپؓ تقریرفرمارہے تھے کہ دورانِ تقریرایک شخص نے اُٹھ کر بار ہا کہا :

’’اے عمرؓ!اللہ سے ڈرو، لوگوں نے اُسے روکا، توآپؓ نے فرمایا کہ ’’اگر یہ لوگ آزادی کیساتھ اپنی بات نہ کہیں تو بے مصرف ہیں اور ہم نہ مانیں،تو ہم بے مصرف ہیں۔‘‘

ایک دفعہ آپؓ نے منبرپر کھڑے ہوکرفرمایا:

’’ لوگو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جائوں ،تو کیا کرو گے؟ یہ سنتے ہی ایک شخص نے اپنی تلوار نیام سے کھینچ لی اور کہا ’’تمہارا سر اُڑادوں گا، آپؓ نے بھی اس کی دلیری اور جرأت کو آزمانے کیلئے ڈانٹ کر کہا، تو امیر المومنین کی شان میں گستاخی کرتا ہے، تجھے پتہ نہیں کہ تو کس سے بات کررہا ہے؟ اُس شخص نے اسی جرأت وبہادری کیساتھ کہا ‘ہاں، ہاں میں آپ ؓ سے مخاطب ہوں ۔یہ سن کر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ

’’ربِ قدوس کا شکر ہے کہ اس قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگرمیں ٹیڑھا ہوجائوں، تو وہ مجھے سیدھا کردیں گے۔‘‘

واللہ قربان جاؤں, صدقے جاؤں میں اپنے لاڈلے عمر رض پر۔ ۔ ۔ ہے آج کسی میں ایسا عجز, انکسار اور وصف کہ وہ مسند اقتدار پر بیٹھ کر یوں تنقید اور معاذ اللہ تضحیک برداشت کرے اور پھر اللہ کا شکر ادا کرے کہ خلقت اس پر تنقید کرتی ہے یہ اچھا ہے۔

حاکمِ وقت امیر المومنین حضرت عمرؓ کی ذرا مفلوک الحالی دیکھیے ۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ

’’میں نے حضرت عمرؓ ابن خطابؓ کے لباس میں اکتیس پیوند چمڑے کے اور ایک پیوند کپڑے کا دیکھا ہے۔‘‘

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ

’’میں نے حضرت عمرؓ کی قمیص میں،ان کے مونڈھوں کے درمیان چار پیوند دیکھے ہیں۔‘‘

کبھی کبھار ایسا بھی ہوجاتا کہ آپؓ اپنے وقت ِمقررہ پربھی اپنے گھر سے باہر تشریف نہ لاسکتے تھے ،ایک مرتبہ کسی نے اس کی وجہ دریافت کی تو فاروقِ اعظمؓ فرمانے لگے

’’مقررہ وقت پر نہ نکلنے کی وجہ یا ذمہ دار میرا یہ واحد جوڑا(لباس)ہے جسے میں دھوکر ڈالتا ہوں تو یہ سوکھنے میں دیر لگا دیتا ہے۔‘‘

حضرت عمر فاروقِ اعظمؓ کا دورِ خلافت بالخصوص عدل وانصاف اور احتساب کے حوالہ سے بے نظیر وبے مثال اور بڑامعروف ٹھہرا ہے آپؓ فرماتے تھے کہ

’’اپنا محاسبہ کرو،قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے، اپنا کیا ہوا محاسبہ تمہارے حساب وکتاب کو روزِ محشر آسان کردے گا‘‘۔پھر فرمایا کہ ’’اپنے اعمال کا ’وزن‘ کرتے رہو،قبل اس کے کہ تمہارے لیے میزان کھڑی کی جائے،اپنے آپ کو بڑی عدالت کی پیشی کیلئے تیار رکھوجس دن تمہاری کوئی بات بھی چھپی نہ رہے گی۔‘‘

حضرت عمر فاروق کی شان میں گل ہائے عقیدت کا گلدستہ جتنا طویل اور ضخیم کرنا چاہیں کرسکتے ہیں پر وہ پھر بھی کم اور تشنہ ہی رہے گا۔

عمر رض کا مشہور و معروف قول ہے کہ

"لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کیا ہے جب کہ ماؤں نے اُنہیں آذاد جنا ہے__!”

آہ عمر آہ میرے لاڈلے عمر۔ ۔ ۔ کاش اللہ نے دور نبوی ص میں پیدا کیا ہوتا تو میں نبی ص کے بعد عمر رض کی مجلس کا لازمی میمبر ہوتا۔

اللہ, اس کے فرشتوں اور تمام مخلوقات کائنات کی لعنت ہو اس مردود ابو لولو فیروز رافضی پر جس نے ایک ہیرا صحابی اور عظیم انسان کی جان لینے کی گستاخی کی۔

اے اللہ روز قیامت ہمارا حساب کتاب عمر رض اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ کرنا۔ آمین۔

#سنجیدہ_بات

#آزادیات

#بلال #شوکت #آزاد

Leave a reply