جوڈیشل کمیشن ججز کی تعداد اور آئینی بینچز کے قیام کا فیصلہ کرے گا، مسودہ پیش

senate

اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن نے آئینی بینچز اور ججز کی تعیناتی کے حوالے سے ایک اہم مسودہ پیش کیا ہے جس میں پاکستان کی عدلیہ کے مختلف آئینی امور کو حل کرنے کے لیے تجاویز دی گئی ہیں۔ اس مسودے میں آئینی بینچز، چیف جسٹس کی تقرری، اور سپریم کورٹ کے مختلف آئینی اختیارات کے حوالے سے اہم نکات شامل ہیں۔مسودے کے مطابق آئینی بینچز میں پاکستان کے تمام صوبوں سے مساوی نمائندگی یقینی بنائی جائے گی۔ اس کا مقصد ملک کے تمام حصوں سے قانونی ماہرین اور ججز کو موقع فراہم کرنا ہے تاکہ وفاق کی نمائندگی ہو اور عدالتی فیصلے قومی یکجہتی کی عکاسی کریں۔مسودے کے تحت سپریم کورٹ کے آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کو سونپا جائے گا۔ مزید یہ کہ آئین کی تشریح سے متعلق کیسز، آرٹیکل 185 کے تحت، صرف آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔ اس سے آئین کی تشریح میں یکسانیت اور عدلیہ کے فیصلوں میں ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔
مسودے کی سب سے اہم تجویز چیف جسٹس کی تقرری کے حوالے سے ہے۔ اس تجویز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا، جس میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے ایک کو منتخب کیا جائے گا۔ یہ کمیٹی 12 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں 8 ارکان قومی اسمبلی اور 4 ارکان سینیٹ سے ہوں گے، اور اس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال مقرر کی جائے اور ان کی عمر کی بالائی حد 65 سال ہو۔ اس سے عدلیہ میں تسلسل اور تجربے کا فروغ ہوگا، اور چیف جسٹس کی مدت مکمل ہونے کے بعد نئے ججز کو بھی موقع ملے گا۔
آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی۔ یہ اختیار صرف آئینی بینچز کو حاصل ہوگا، جس سے فیصلوں کی قانونی حیثیت مزید مضبوط ہوگی۔ اس کے علاوہ، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے۔ یہ تجویز مختلف عدالتوں کے درمیان کیسز کے بوجھ کو بہتر انداز میں تقسیم کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے۔مسودے میں ججز تقرری کمیشن کو ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے ججز کی پیشہ ورانہ ترقی اور معیار کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

Comments are closed.