میوزک کی حقیقت تحریر:نصرت پروین

0
80

آج ہم ایک ایسے فتنہ خیز دور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں لوگ برملا عبادت کا انکار کرنے لگے، کچھ تو رب ہی کا انکار کرتےہیں، کوئی حجاب کو قید کہتا ہے تو کہیں حجاب سے آزادی ہے اور کہیں تو مکمل لباس سے ہی آزادی ہے۔ یقیناً یہ تکلیف دہ حالات ہیں کئی باتیں ایسی ہیں جو تحریر کرنا بھی بہت مشکل ہے کیوں آج لوگ میوزک کو ہی دین بنا بیٹھے ہیں؟ کیوں وہ اپنی ہر تکیف کا علاج میوزک کو سمجھتے ہیں؟ کیوں وہ میوزک کو اپنے لئے ضروری غذا کہتے ہیں؟ کچھ کہتے ہیں۔ ".God is a dj” نعوذ باللہ۔ کچھ نے کہا میوزک تو آپکی سانسیں ہیں یعنی جیسے انسان سانس کے بغیر نہیں جی سکتا ایسے ہی میوزک کے بغیر جینا بھی مشکل ہے۔

"سیدنا قتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ شیطان جب ملعون ہو کر آسمان سے نیچے اتر آیا تو کہنے لگا اے الله تو نے مجھے ملعون تو بنا دیا اب یہ بتا دیجئے کہ دنیا میں میرا علم کونسا ہوگا؟ الله نے فرمایا تیرا علم جادو ہوگا۔ پھر کہنے لگا میری پسندیدہ آواز کونسی ہوگی؟ الله نے فرمایا گانا بجانا۔ پھر کہنے لگا میرا پسندیدہ مشروب کونسا ہوگا؟ الله نے فرمایا ہر نشہ آور چیز تیرا مشروب ہوگا۔”
تین چیزین ہیں جادو، میوزک، اور تمام قسم کی منشیات۔ تینوں کا تعلق شیطان سے ہے۔
ان تینوں کاموں سے الله اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوبصورت آواز اور خوبصورت پیغام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ آدم سے لے کر نبی صلی الله علیہ وسلم تک کسی نے آواز کے حسن سے منع نہیں کیا لیکن شرط یہ ہے کہ جذبات پاکیزہ ہوں، بےضرر ہوں اور بےحیائی نہ ہو۔ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نکاح کے وقت، عیدین پر، عورتوں کی خاص نجی محفل میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے آواز کے حسن کی اجازت دی ہے لیکن کچھ پڑھنے یا گانے کے شرط رکھی کہ آوازیں مردوں تک نہ پہنچیں اور فحش نہ ہوں۔
آواز کے ساتھ جب ساز مل جانے سے وہ میوزک بن جاتا ہے۔ اور ساز معاشرے کے لئے بہت نقصاندہ ہے یہ بات سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ میوزک سننے سے آپکی سوچنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی ہے انسان جب میوزک سنتا ہے تو وہ ایک خیالی دنیا میں چلا جاتا ہے جسکا اثر دماغ کے اس حصے پر پڑتا ہے جہاں لانگ ٹرم میموری واقع ہے پس لانگ ٹرم میموری کمزور ہوجاتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سوچنے اور یاد کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے علاوہ میوزک انسان کو جنسی اشتعال انگیزی پہ ابھارتا ہے۔ گوگل پہ انکی لسٹ پائی جاتی ہے کہ کس گانے میں کتنا جنسی آلہ استعمال ہوا ہے۔
میوزک ایک خطرناک جادو کی طرح ہے جو انسان پر اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے انسان اس آواز کے سحر میں چلا جاتا ہے۔ انسان خود کو ہلکا پھلکا، اور ہر غم سے آزاد محسوس کرتا ہے۔ دراصل، انسان کا جسم، ذہن اور روح ایک پوزیشن پہ نہیں رہتے۔ جیسے ایک طیارہ جب تباہ ہوتا ہے اوپر سے نیچے آتا ہے تو اسے نیچے آنےمیں کوئی طاقت اور وقت نہیں لگتا اور وہ لمحے میں تباہ ہوجاتا ہے یہ ہی کیفیت میوزک سننے والے کی ہوتی ہے۔ اور پھر میوزک انسان کی روح کو ایسے بکھیر دیتا ہے۔ جسے شیشے کا گلاس نیچے گرتا ہے اور بکھر کر چوُر چوُر ہوجاتا ہے۔
میوزک تزبزب پیدا کرتا ہے۔ آپکو بے چین کرتا ہے۔ میوزک سکون نہیں دیتا۔ میوزک انسان کی عقل پہ غالب آجاتا ہے۔ انسان کے حواس کو قابو میں کرلیتا ہے۔ انسان کا کنٹرول شیطان کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ آواز، ساز اور لہجہ تینوں چیزیں انسانی کیفیات کو متاثر کرتی ہیں۔ میوزک کی ایک شناخت رقص بھی ہے میوزک کے ساتھ انسان کے ہاتھ پاؤں حرکت کرنے لگتے ہیں۔ میوزک کوئی معمولی یا بے ضرر چیز نہیں ہے یہ ایک ایسا نشہ ہے جو آپکودوسری نشہ آور اشیا کے مقابلے میں آسانی سے دستیاب ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی نشہ کرنا چاہے تو وہ پہلے خریدتا ہے پھر کرتا ہے اس پہ وقت لگتا ہے لیکن میوزک ایسا نشہ ہے جو آپ نہ بھی سننا چاہیں تو بعض اوقات آپکو سنوا دیا جاتا ہے۔ اور ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب انسان برائی کا عادی ہوجاتا ہے تو اس میں احساسِ گناہ ختم ہو جاتا ہے
قرآن و حدیث میں میوزک سے منع کرنے کے مختلف انداز ہیں مثلاً یہ کہا گیا کہ میوزک حرام ہے، کبھی منع کر کے، کبھی ناپسندیدہ قرار دے کر، کبھی شیاطین کا آلہ قرار دے کر، کبھی باعثِ عذاب کہہ کر، کبھی گناہ کہہ کر، کبھی بے ہودہ کام کہہ کر۔ قرآن و حدیث میں میوزک کے حرام ہونے کی درج زیل دلائل ملتی ہیں۔

"الله رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿۶﴾
ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔ (سورہ لقمان: 6)”

اس کے علاوہ قرآن پاک میں متعدد بار الله رب العزت نے فحاشی اور شیطان کی پیروی سے منع کیا ہے۔ اور میوزک فحاشی کا مرکز اور شیطان کی پسندیدہ آواز ہے۔

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
گانا(میوزک) دل میں نفاق اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو پیدا کرتا ہے۔
(السنن الکبری للبھیقی:21537)”

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں ایسے برے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو زناکاری، ریشم کا پہننا، شراب پینا اور گانے بجانے کو حلال بنا لیں گے اور کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑ کی چوٹی پر ( اپنے بنگلوں میں رہائش کرنے کے لیے ) چلے جائیں گے۔ چرواہے ان کے مویشی صبح و شام لائیں گے اور لے جائیں گے۔ ان کے پاس ایک فقیر آدمی اپنی ضرورت لے کر جائے گا تو وہ ٹالنے کے لیے اس سے کہیں گے کہ کل آنا لیکن اللہ تعالیٰ رات کو ان کو ( ان کی سرکشی کی وجہ سے ) ہلاک کر دے گا پہاڑ کو ( ان پر ) گرا دے گا اور ان میں سے بہت سوں کو قیامت تک کے لیے بندر اور سور کی صورتوں میں مسخ کر دے گا۔
(صحیح بخاری:5590)”

صحابہ کرام کے طرزِعمل سے پتہ چلتا ہے کہ وہ میوزک کو سخت ناپسند کرتے تھے ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں دے دی اور راستہ بدل لیا حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں ان کے ساتھ تھا جب میں نے کہا اب آواز نہیں آرہی تب انہوں نے کانوں سے انگلیاں نکال کر فرمایا کہ ایک دفعہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح میوزک کی آواز سنی اور اسی طرح کانوں میں انگلیاں دے دی تھی۔
بعض حقیقتیں بہت تلخ ہوتی ہیں لیکن جب انسان حقیقت جان لیتا ہے تو اس کے لئے برائی چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے۔ پس حقیقت جان لیجئے اور برائی چھوڑ دیجئے!!
جزاکم الله خیرا کثیرا
@Nusrat_writes

Leave a reply