افغان طالبان نے حیرت انگیز فتوحات حاصل کرتے ہوئے 15 اگست کے روز چند گھنٹوں میں کابل کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے تخت افغانستان پر اپنی عملداری قائم کرلی، دنیا نے اس بار افغان طالبان کی ایک نئی شکل و صورت اور حکمت عملی کا بھی مشاہدہ کیا کہ کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان نے کوئی قتل عام کیا ناں ہی سرکاری و نجی املاک کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا تاہم اب بھی بہت سارے سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہیں کیونکہ تاریخ کبھی بھی صرف رونما ہونے والے واقعات کا مجموعہ نہیں ہوا کرتی بلکہ پیش آنے والے واقعات کے درپردہ محرکات اور ان کے پیچھے کارفرما سوچ تک بذریعہ سوال و جواب ہی پہنچا جاتا ہے۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حالیہ فتوحات نے امریکا کی ناں صرف افغانستان بلکہ جنوب ایشیائی خطے میں ناکام پالیسیوں پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ دنیا کی سپرپاور بننے کے جنون میں مبتلا امریکا کی ان ناکام پالیسیوں سے کئی انسانی المیے جنم لے سکتے ہیں تاہم اگر چین اور پاکستان مربوط کوششیں کریں تو اس سے ایک نیا افغانستان ابھر کر سامنے آئے گا جو ناں صرف چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں ماہرین کی طرف سے یہ سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ افغانستان کے نئے حکومتی سیٹ اپ کے قیام کے لئے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے کیا منصوبہ بندی کی جائے گی؟ کیا مستقل بنیادوں پر خواتین اور اقلیتوں کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں گے؟
کیا طالبات کو تعلیم اور خواتین کے لئے ملازمتوں کے مواقع بحال رکھے جائیں گے؟ دنیا بھر کی حکومتوں، بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کی نظریں افغانستان اور طالبان کی حکمت عملی پر مرکوز ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں بسنے والے افغان طالبان سے وہ سب کچھ چاہتے ہیں جو ترقی پذیر ممالک کی اکثریت میں عوام کو میسر نہیں تاہم بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی جیسا کہ خواتین کو ملازمتوں میں مناسب نمائندگی دینا، بچیوں کو تعلیم کے مساوی مواقع فراہم کرنا اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے جیسے اقدامات ممکن ہیں اور یقینی طور پر افغان طالبان اپنے وعدوں اور ارادوں کو پورا کریں گے جس کے لئے افغان طالبان پر حامی ممالک کی طرف سے دبائو بھی ہے۔ اس حقیقت میں تو اب کوئی دو رائے نہیں کہ افغان طالبان افغانستان کے کونے کونے میں پھیل چکے ہیں اور صرف کابل یا کسی مخصوص علاقے میں افغان طالبان نے فتح حاصل نہیں کی بلکہ وسطی افغانستان کی طرح دوردراز علاقوں میں بھی اپنی عملداری قائم کر لی ہے تاہم دور دراز دیہی علاقوں میں قانون ہاتھ میں لینے کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ان پر بھی طالبان قیادت کو سنجیدگی سے سر جوڑنا ہوگا کیونکہ طالبان کی قیادت و سیاست کا امتحان ابھی ختم نہیں بلکہ شروع ہوا ہے اور انہیں افغانستان اور افغان باشندوں سے اپنی محبت کے ساتھ اپنی اہلیت کا بھی عملی نمونہ پیش کرنا ہے
جسے ایک نئی آزمائش اور نئی گیم کے آغاز کے طور پر دیکھا جانا چاہئے اور اس سلسلے میں مغربی دنیا کو بھی اپنا مثبت رول ادا کرتے ہوئے افغان طالبان کی سرپرستی اور قیادت میں بننے والے نئے حکومتی سیٹ اپ کو بھرپور انداز میں سپورٹ کرنا ہوگا تاکہ دو دہائیوں پر محیط حالیہ خانہ جنگی کے بعد افغانستان امن، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکے اور سالہا سال سے مہاجرین کی زندگی بسر کرنے والے افغان باشندے ایک پرامن اور خوشحال افغانستان میں زندگی بسر کر سکیں۔