عمران خان کے ساتھ میرا دس نکاتی اختلاف  تحریر: احسان الحق

0
30

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان نے قوم میں ایک نئی سوچ اور امید پیدا کی ہے. عمران کی انتخابی مہمات میں کی گئی تقاریر، مخالفین پر لگائے گئے الزامات اور نئے پاکستان بنانے کے لئے نعروں اور وعدوں سے پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی. عمران خان کے نعرے اور وعدے اس قدر خوبصورت اور پرکشش تھے کہ پاکستانیوں کی خاصی تعداد سیاسی لحاظ سے عمران خان کی طرف جھک گئی. انتخابی نعروں اور وعدوں کی بنا پر پاکستانیوں نے عمران خان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کر لیں. عمران خان کی حکومت چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے اور ابھی تک عمران خان قوم کی توقعات کے عین مطابق پورا نہیں اترے ماسوائے کچھ شعبوں اور معاملات میں.

میرے خیال میں عمران خان کے نعروں اور وعدوں کو دو مختلف زاویوں سے دیکھنا چاہئے. ایسے معاملات جن کا تعلق اقتصادیات اور معاشیات سے ہے جیسا کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا وغیرہ اور کچھ انتظامی حوالے سے وعدے تھے جیسا کہ مختلف اصلاحات وغیرہ. پاکستان ایک غریب، ترقی پذیر اور قرضوں میں ڈوبا ہوا ملک ہے. دوسرا سابقہ حکومتوں کے معیشت مخالف معاہدوں، منصوبوں اور قرضوں کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا، بجلی مہنگی کرنا، ڈالر کا اوپر جانا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا جیسی مجبوریاں سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں اور ان پر مجھے ذاتی طور پر کوئی تشویش نہیں. وعدوں اور نعروں کی دوسری قسم جس کا تعلق انتظام، حکومت، احتساب، آئین سازی، مہنگائی اور اصلاحات سے ہے، ان پر مجھے بہت تشویش ہے کیوں کہ ان وعدوں کو پورا کرنے میں پیسہ خرچ نہیں ہوتا. جیسا کہ پولیس اصلاحات، اس میں قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا؟ میرے خیال میں کچھ بھی نہیں، مفت میں پولیس اصلاحات ہو جائیں گی.

مجھے عمران خان کے ساتھ جس 10 نکاتی اختلاف ہے، ان دس نکات کا خزانے اور بجٹ سے تقریباً کوئی تعلق نہیں.

عمران خان نے سو دنوں میں مختلف کام کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے سو دنوں کا حکومتی ایجنڈا پیش کیا تھا. ان سو دنوں میں مختلف کام کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور ان میں ایک وعدہ تھا سرائیکی صوبے کا قیام. آج 1100 دن گزر جانے کے باوجود بھی سرائیکی صوبے کا قیام مکمل نہیں ہوا حالانکہ یہ کام سو دنوں میں کرنے کا وعدہ تھا، خیر ہم تو اس وقت بھی جانتے تھے کہ یہ کام سو دنوں میں کیسے ہو سکتا ہے. صوبے کا قیام ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے. کچھ سیکرٹریوں کی تعیناتی کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جا سکا. اگر حکومت غیر معمولی تیزی اور کارکردگی دکھاتے ہوئے اپنے دور حکومت میں سرائیکی صوبے کا قیام مکمل کر جائے تو پھر بھی انتخابی حوالے سے الیکشن کمیشن کا کام باقی رہ جائے گا. جس میں صوبائی اور وفاقی حلقہ بندیوں سمیت ایوان بالا کی نشستوں پر بھی کام کرنا پڑے گا. دس نکات میں یہ پہلا نکتہ ہے جس پر اعتراض ہے کیوں کہ اس کا تعلق بھی بہت بڑے بجٹ سے نہیں.

ماڈل ٹاؤن واقعہ کے ردعمل میں عمران خان کہا کرتے تھے کہ حکومت میں آتے ہی پولیس کو سیاست دانوں، جاگیرداروں اور حکومتی ارکان کے عمل دخل اور اثر سے پاک کریں گے. پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں گی. پولیس کو عوام کا خادم بنایا جائے گا. پولیس اصلاحات ابھی تک نہیں ہو سکیں بلکہ مخالفین کا الزام ہے کہ شہباز شریف دور میں پنجاب پولیس کی کارکردگی نسبتاً بہتر تھی. پولیس اصلاحات کرنے کے لئے بھی کسی اضافی رقم کی ضرورت نہیں، مطلب محض انتظامی معاملہ ہے مگر ابھی تک عمران خان اور پنجاب حکومت اصلاحات کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے. عمران خان مختصر کابینہ رکھنے کا بھی وعدہ کرکے آئے ہیں. وہ اکثر یورپ بالخصوص برطانیہ کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہتے تھے کہ 15 بندوں کی کابینہ ہوگی. مگر اب وفاقی کابینہ اور وزیراعظم کے مشیر اور وزیر مملکت کی تعداد نصف سینکڑے کے نزدیک ہوگی.

سب سے مقبول نعرہ اور پرکشش اور متاثر کن وعدہ احتساب کا وعدہ تھا. عمران خان پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے بہت سارے لوگوں سے پیسہ نکلوا کر قومی خزانے میں جمع کروانے کا وعدہ کرتے تھے. سیاسی معاملات اور وجوہات کی بنا پر کچھ لوگوں کا یا کسی سطح تک احتساب ضرور ہوا ہے مگر جس قدر توقعات وابستہ تھیں ویسا احتساب ابھی تک دیکھنے میں نظر نہیں آیا. متحدہ حزب اختلاف اور حکومت کے کچھ لوگ احتساب کے ریڈار میں ضرور آئے ہیں مگر مقصد سزا دینا نہیں بلکہ قومی پیسہ وصول کر کے واپس قومی خزانے میں جمع کروانا ہے.

مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے. موجودہ حکومت میں مہنگائی سو فیصد سے تین سو فیصد تک بڑھ چکی ہے. معاشی بدحالی عروج پر ہے. موجودہ حکومت کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ دوسرا سال کورونا میں گزر رہا ہے مگر مجموعی طور پر حکومت مہنگائی کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے. غریب عوام کی قوت خرید جواب دے رہی ہے. اشیائے خوردونوش میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے. مہنگائی یا قیمتوں پر قابو پانا صرف جانچ پڑتال اور سزا جزا سے ہو سکتا ہے. ذخیرہ اندوزوں اور خود ساختہ قیمتوں میں اضافہ کرنے والے مافیا کو راہ راست پر لانے کے لئے بجٹ کی ضرورت نہیں. یہ صرف انتظامی امر ہے.

عمران خان اور موجودہ حکومت کے ساتھ اہم ترین اور شدید ترین اختلافات میں سے ایک اختلاف بے حیائی، فحاشی اور اسلام دشمنی کے متعلق ہے. موجودہ حکومت میں فحاشی اور عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے. مارچ 2018 میں پہلی بار پاکستان میں لبرلز اور اسلام دشمن طلاق یافتہ خواتین نے عورت مارچ منایا. یہ ن لیگ کے دور حکومت میں اور عام انتخابات سے پہلے کی بات ہے. چند درجن آنٹیوں نے شرعی اقدار اور چادر چاردیواری کے خلاف اور عورت کی آزادی کے نام پر متنازعہ جلوس نکالا. اگلے سال 2019 میں ہونے والے عورت مارچ نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دئیے. خواتین کی تعداد، مردوں اور میڈیا کے لوگوں کی شرکت، سوشل میڈیا پر کوریج، انتہائی نازیبا اور شرمناک پلے کارڈز اور نعروں کے لحاظ یہ عورت مارچ انتہائی متنازعہ تھا. مبینہ طور پر ان تمام سرگرمیوں کے پیچھے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری ہیں. ہر آئندہ عورت مارچ اسلام دشمنی میں، شرعی اقدار کے مزاق اڑانے میں اور فحش نعروں کے حوالے سے زیادہ متنازعہ اور شرمناک ہوتا ہے. اسلام، اخلاقیات اور شرم وحیا کی ساری حدیں تو رواں سال 2021 کے عورت مارچ میں عبور کی گئیں جب مبینہ طور گستاخانہ پلے کارڈز اور ہم جنس پرستی کی عالمی تنظیم کا جھنڈا لہرایا گیا مگر آج تک عمران خان اور اس کی حکومت اس پر ایسے خاموش ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں. مجھے زیادہ اعتراض اس بات پر ہے کہ اس طرح کی تمام اسلام اور اخلاق دشمن سرگرمیوں کی پشت پناہی وزارت انسانی حقوق کر رہی ہے.

عمران خان نے مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگایا اور ٹھیک مدینہ کی ریاست کے اصولوں پر پاکستان کو چلانے کا وعدہ کیا مگر حقائق اس کے برعکس ہیں. عمران خان نے کابینہ کے لئے جن لوگوں کا انتخاب کیا وہ اکثر لبرل ہیں اور ان میں متعدد اسلام کے دشمن ہیں. ایک طرف مدینہ کی ریاست کا نعرہ دوسری طرف لبرل اور اسلام دشمن کابینہ کا انتخاب، اس بات پر بھی مجھے کافی اختلاف ہے.

سنجیدہ ترین اعتراضات اور اختلافات میں ایک اسلام دشمن آئین سازی یا ترمیم سازی بھی ہے. موجودہ ایوان نے اسلام مخالف قانون سازی کی اور کچھ ترمیم کی. جیسا کہ گھریلو تشدد بل یا Domestic violence Bill جس میں بیوی کو شوہر کی اطاعت اور خدمت نہ کرنے کا اختیار دیا گیا، عورت چاہے تو خاوند کو جیل بھی بھیج سکتی ہے. والدین اپنے بچوں کی نگرانی نہیں کر سکتے اور تربیت کے لئے ڈانٹ ڈپٹ نہیں کر سکتے. کسی بھی جرم یا غلطی پر والدین اپنی اولاد کو گھر سے نہیں نکال سکتے حالانکہ اسلام نے والد کو اجازت دی ہے کہ اگر بیٹا نافرمانی پر اتر کر باغی بن جائے تو والد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے بیٹے کو جائیداد سے عاق کر سکتا ہے.

ان دنوں ایک اور متنازعہ مجوزہ آئینی بل زیر بحث ہے جس میں 18 سال سے کم کوئی بھی غیر مسلم شخص اسلام قبول نہیں کر سکتا اور 18 سال سے اوپر اسلام قبول کرنے والے شخص کے لئے سخت طریقہ کار بناتے ہوئے ایسی شرائط اور پیچیدگیوں کی تجویز زیر غور ہے جس سے اسلام قبول کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا جائے گا. حکومتی سطح پر اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ واقعی اس نوعیت کا بل وزارت مذہبی امور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس زیر غور اور زیر بحث ہے. اب یہ بھی سنا ہے کہ اس بل کو مسترد کر دیا گیا ہے.

آخر میں سادگی اور یکساں نظام تعلیم کے وعدے ہیں. سادگی پر عمران خان نے اپنے تئیں کوشش کرتے ہوئے سادگی اختیار کی ہے اور قومی خزانے پر بوجھ کم کیا. وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات اور وزیراعظم کے بیرونی دوروں پر آنے والے اخراجات میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے. وفاقی کابینہ اور اراکین، صوبائی حکومت اور اراکین روایتی انداز میں اقتدار کے مزے لے رہے ہیں. بحیثیت وزیراعظم اور بحیثیت سربراہ تحریک انصاف عمران خان کو سختی سے سادگی والی بات کا عمل درآمد دوسرے ماتحت لوگوں پر بھی کروانا چاہیے.

آخر میں یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب کے حوالے سے ہے، کچھ دن پہلے حکومت اور وزارت تعلیم کی جانب سے عملی کام دیکھنے میں نظر آیا حالانکہ یہ کام عمران خان ہنگامی بنیادوں پر کرنے کا وعدہ کر چکے تھے. حسب معمول اور حسب روایت عمران خان کے اس بہترین کام کی مخالفت کی گئی اور اس وقت مخالفت عروج پر ہے. مخالفین اور مخالفت کی متعدد وجوہات ہیں. سب سے اہم عمران خان کے ساتھ سیاسی اختلاف، دوسرا لبرلز کا گروہ جو ہمیشہ اخلاقیات کے منافی کام کرتا ہے، کچھ نجی تعلیمی ادارے بھی مخالفت کر رہے ہیں، کچھ قوم پرست طبقہ بھی اردو کے بغض میں یکساں نصاب کی مخالفت میں ہے. عمران خان اور وزارت تعلیم مخالفت اور تنقید کے بعد بیک فٹ پر چلی گئے ہیں. اب دیکھنا یہ ہے کہ یکساں نظام تعلیم اور یکساں نصاب والا وعدہ کب، کیسے اور کتنا پورا ہوتا ہے.

@mian_ihsaan

Leave a reply