سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں دو صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ جاری کر دیا !
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریری نوٹ میں کہا کہ ہم 19 جولائی 2022 سے نیب ترامیم کے خلاف کیس سن رہے ہیں،
16 مارچ کو کیس کی 46 ویں سماعت کے بعد پارلیمنٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 3 کے مطابق 184(3) کے مقدمات کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بینچ تشکیل دے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 4 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کم از کم پانچ رکنی لارجر بینچ کرے گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ ہونے کے بعد میں ترامیم کی گزشتہ سماعت 16 مئی کو ہوئی،16 مئی کی سماعت سے قبل میں نے کیس سننے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا، 16 مئی کو کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی، میری رائے تھی کہ نیب ترامیم کیس کی مزید سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے فیصلے کے بعد کی جائے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ کیے بغیر نیب ترامیم کیس سماعت کے لیے مقرر کیا گیا،
جسٹس منصور علی شاہ نے تحریری نوٹ میں کہا کہ نیب ترامیم کیس سمیت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون تمام زیر التوا مقدمات پر بھی لاگو ہوتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف حکم امتناع عبوری حکم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو آئینی طور پر درست یا غلط قرار دیئے جانے کا یکساں امکان ہے، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو درست قرار دیا جاتا ہے تو قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ کی بجائے اپنی نافذ کی گئی تاریخ سے لاگو ہوگا،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون درست قرار دیا گیا تو نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ قانون کی نظر میں کالعدم قرار پائے گا، قانون درست قرار پایا تو اس کا اطلاق نفاذ کی تاریخ سے ہوگا نہ کہ عدالتئ فیصلے کے دن سے، پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی قرار پایا تو نیب کیس سننے والا بنچ غیر قانونی تصور ہوگا، میری رائے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلے تک 184/3 کے مقدمات نہ سنے جائیں،
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز