ذرائع آمدن اگر ملزم نے نہیں بتاتے تو جرم ثابت کیسے ہو گا؟ چیف جسٹس
سپریم کورٹ: نیب ترامیم کیخلاف چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں شامل ہیں، سماعت کا آغاز ہوتے ہی سرکاری وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آ گٸے،حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کردیا،وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کے آغاز میں حمیدالرحمٰن چوہدری کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حمید الرحمٰن مشرقی پاکستان کے سیاست دان تھے جنہوں نے اپنے ٹرائل کی کہانی لکھی، انہیں اس بات پرسزا دی گئی تھی کہ پبلک آفس سے پرائیویٹ کال کیوں کی؟ مغربی پاکستان سے تفتیشی افسران اورجج لے کرجاتے تھے۔ یہی وہ حالات تھے جومشرقی اورمغربی پاکستان کوآمنے سامنے لائے۔ آئین قانون سازوں کو بااختیار بناتا ہے کہ وہ آج ایسے قوانین کونہ پنپنے دیں ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس ہمارے لیے ایجوکیشنل بھی ہے
مخدوم علی خان نے ججز کو تین مختلف ملکی و غیرملکی کتابیں مطالعہ کیلئے پیش کر دیں ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے نیب ترمیمی کیس ہمارے علم میں کافی اضافے کا باعث بنے گا، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے ترامیم کے ماضی سے اطلاق پر دلائل دینے کا کہا تھا، احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہی ماضی سے کیا جاتا رہا ہے،سال 1996 میں احتساب آرڈیننس آیا اطلاق 1985 سے کیا گیا،1997 میں دو احتساب آرڈیننس آئے انکا اطلاق بھی 1985 سے ہوا، نیب قانون 1999 میں بنا اس کا اطلاق بھی 1985 سے ہی کیا گیا، چیلنج کی گئی 2022 کی دونوں ترامیم کا اطلاق بھی 1985 سے کیا گیا، پی ٹی آئی دور میں ہونے والی ترامیم کا اطلاق بھی 1985 سے ہی کیا گیا تھا،
مخدوم علی خان نے آئین کے آرٹیکل 12 کا حوالہ دیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب ترامیم اور ان کا ماضی سے اطلاق غیر آئینی نہیں ،بے نامی دار کے کیس میں معاملہ آمدن سے زائد اثاثوں کا ہوتا ہے اب کہا گیا ہے آپ پہلے ثابت کریں کہ وہ اثاثے کرپشن سے بنائے ،یہ ایک نئی چیز سامنے آئی ،اب نئے قانون کے مطابق بے نامی جائیداد رکھنا مسئلہ نہیں ،اب مسئلہ اس رقم کا بن گیا ہے کہ وہ کرپشن سے آئی یا نہیں ایسا کرنا ہے تو پھر معلوم ذرائع آمدن سے زائد اثاثوں کو جرم کی کیٹگری سے نکال دیں ،یہ احتساب کی تو ریڑھ کی ہڈی ہے،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب نے لوگوں کے لاکرز توڑے گھروں میں گھسے اور پھر ملا بھی کچھ نہیں ،مخدوم علی خان کی جانب سے جسٹس منصور شاہ کے لکھے خورشید شاہ کیس میں فیصلے کا حوالہ دیا گیا،اورکہا گیا کہ فیصلے میں عدالت نے کہا تھا پراپرٹی کسی کے قبضے میں ہے اور اس کا منافع کون لے رہا ہے دونوں چیزوں کا تعین ضروری ہے ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آمدن سے زائد اثاثوں پر پہلے ثابت کیا جائے وہ کرپشن سے بنے ،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پراسیکیوشن اگر الزام لگا رہی ہے تو اس کے پاس ثبوت ہونا لازمی ہے ہر بے نامی ٹرانزیکشن یا پراپرٹی کرپشن نہیں ہوتی ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ذرائع آمدن ملزم نے نہیں بتائے تو جرم ثابت نہیں ہو گا ، آپ یہ کہ رہے ہیں کہ نیب ترمیم سے کوئی بنیادی حقوق متاثر نہیں ہو رہے
.وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میری گزارش یہی ہے کہ بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے ،،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا کوئی سیریس جرم رہ نہیں گیا ،وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ برطانیہ میں سزائے موت آخری دو جرائم پر بھی ختم کی جا چکی ہے اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ مجرموں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے مختلف ادوار میں جرائم سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ اپنایا جا سکتا ہےن
نیب ترامیم کیخلاف درخواست،جسٹس منصور علی شاہ کی فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز
جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کیس میں دو صفحات پر مشتمل تحریری نوٹ جاری کر دیا
میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، فیصلہ نہ دیا تو میرے لئے باعث شرمندگی ہوگا،چیف جسٹس
قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات کا ریکارڈ عدالت میں پیش
نیب ٹیم توشہ خانہ کی گھڑی کی تحقیقات کے لئے یو اے ای پہنچ گئی،
وفاقی دارالحکومت میں ملزم عثمان مرزا کا نوجوان جوڑے پر بہیمانہ تشدد،لڑکی کے کپڑے بھی اتروا دیئے
بزدار کے حلقے میں فی میل نرسنگ سٹاف کو افسران کی جانب سے بستر گرم کی فرمائشیں،تہلکہ خیز انکشافات
10جولائی تک فیصلہ کرنا ہے،آپ کو 7 اور 8 جولائی کے دو دن دیئے جا رہے ہیں