اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان ، محمد نعیم شہزادکا بلاگ

0
47

اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان محمد نعیم شہزاد

زندہ اور باضمیر قومیں اپنے محسنین کو ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان کے احسان کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ مسلمان قوم نے برصغیر پاک و ہند پر ایک طویل عرصہ حکومت کے بعد محکومانہ زندگی بھی بسر کی۔ اس سارے عرصے میں مسلمانان نے کبھی بھی غاصب و قابض اقوام کو اپنا سردار تسلیم نہ کیا اور جہد مسلسل میں لگے رہے۔ غلامی کا یہ دور 90 برس پر محیط ہوا۔ مگر اس دور سے ایک اہم سبق جو حاصل ہوا اسے حرز جاں بنانا چاہیے۔ اس دور غلامی کا سب سے اہم سبق یہی تھا کہ مخالف قوتوں اور استعمار کے مقابل کامیاب ہونے کے لیے جہاں جدوجہد کی اہمیت ہے اس سے کہیں بڑھ کر اچھی اور باصلاحیت قیادت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا کہ ہمیں محمد علی جناح کی صورت میں ایک عظیم قائد ملا جسے بجا طور پر قائداعظم کا لقب دیا گیا۔ یہ ان کی ذہانت، دور اندیشی اور معاملہ فہمی و تدبر کا ہی نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن کی جدو جہد زور پکڑ گئی اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک اہم اسلامی ریاست کے طور پر وجود میں آگیا۔

قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں نے بیک وقت برطانوی سامراج اور ہندو چانکیائی ذہن سے مقابلہ کیا اور دونوں کو چاروں شانے چت کر کے اپنے نظریے اور سوچ کو منوایا۔ آج ملک پاکستان نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ اقوام عالم میں ایک نمایاں حیثیت اور مقام رکھتا ہے۔ اس سب کا سہرا پاکستان کے اداروں اور حکمرانوں کو تو جاتا ہی ہے مگر سب سے بڑھ کر قابل تحسین وہی ذات ہے جس نے پاکستان کو وجود بخشنے میں اپنا دن رات ایک کر دیا۔

آج ہم ایک آزاد وطن کے باسی ہیں مگر بہت سے معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ حکومتیں مصلحت اختیار کرتی ہیں کہیں بیک فٹ پر آ جاتی ہیں اس سب کو دیکھتے ہوئے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب ریاست اپنے ہی عوام سے بہت سی باتیں براہ راست نہیں منوا سکتی تو کس قدر منصوبہ بندی اور فطانت سے ہمارے عظیم قائد نے بغیر کسی جنگ کے برطانوی سامراج کو پاکستان کو آزاد وجود دینے پر مجبور کر دیا۔

ان کی منصوبہ بندی قابل غور اور قابل تقلید ہے۔ مقصد کے حصول کی لگن، خود اعتمادی، غیر مبہم طریقہ کار اور عمل پیہم چند بنیادی اوصاف ہیں جو کسی بھی فرد یا قوم کو اس کے مقصد میں کامیاب کرتے ہیں۔ اس سب سے پیشتر دور بینی و دور اندیشی ایک ایسی خداداد صلاحیت ہے جس کی بنیاد پر مزید لائحہ عمل تیار ہو گا۔ گویا اسے قائد کی بنیادی صفت کہا جا سکتا ہے۔ محمد علی جناح کو یہ وصف خاص ودیعت کیا گیا تھا۔ آپ نے جب کارِ سیاست میں دلچسپی ظاہر کی تو فطری تقاضوں کے تحت ہندو، مسلم اتحاد کی کوشش کی۔ مگر آپ کی دور اندیشی جلد ہی آپ کو اس نتیجے پر لے آئی کہ ہندو، مسلم اتحاد ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب کے باعث ناممکن ہے۔ اور آپ نے ایک بھی لحظہ ضائع کیے بغیر اپنا راستہ ہندوؤں سے الگ کر لیا۔ اور یہی طرز عمل دو قومی نظریہ کو تقویت دینے والا اور پاکستان کے قیام کی راہ میں ایک سنگ میل کی حیثیت پا گیا۔

قائد اعظم کی سوچ و افکار کی بلندی کا اندازہ اس بات سے کریں کہ ان کی کاوشوں کا حاصل محض ایک قطعہ ارض نہ تھا بلکہ آپ نے ان الفاظ سے اپنے مقصد کی طرف اشارہ کیا کہ ہم اسلام کے آفاقی اصولوں کو اپنے کے لیے پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں ۔ اسی بات کے تواتر میں آپ نے اسلامی تعلیمات کو پاکستان کا آئین قرار دیا۔

میرے نزدیک قائداعظم کے تین بڑے فیصلے جو تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف کی صورت زندہ رہیں گے وہ ان کا دو قومی نظریہ پر ڈٹ جانا، کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دینا اور اسرائیل کا وجود تسلیم نہ کرنا ہیں ۔ یہ تینوں ہی وہ بڑے اصولی فیصلے ہیں جو قائداعظم کی دور اندیشی، معاملہ فہمی اور سوچ کی درست عکاسی کرتے ہیں۔ موجودہ حالات قائداعظم کے ان فیصلوں کی صداقت اور اہمیت پر واضح دلیل ہیں۔ حتی کہ وہ لوگ جو دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر تقسیم کی مخالفت کرتے تھے آج اپنی غلطی کا اعلانیہ اعتراف کرتے ہیں ۔ کشمیر کی پاکستان کے لیے اہمیت و افادیت بھی موجودہ حالات میں کافی واضح ہے۔

وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہمارے حکمران داخلی و خارجی معاملات میں قائداعظم کے عمل سے راہنمائی حاصل کریں اور وطن کو عظیم سے عظیم تر بنا دیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے عظیم قائد، بانی پاکستان کی بشری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے اور دین اسلام اور مسلمانوں کی اس عظیم خدمت کا بھرپور اچھا صلہ عطا فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو ان جیسی سیاسی بصیرت سے نوازے ۔ آمین یا رب العالمین

Leave a reply