نشہ ایک لعنت ہے . تحریر:حنا سرور

0
44

نشہ ایک بیماری ہے جس کا علاج انتہائ ضروری ہے ۔نشہ موت ہے زندگی انمول ہے ہر گلی محلے میں چرس آئس وغیرہ کی فروخت سرے عام ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل بربادی کی طرف گامزن ہے

منشیات اور ہماری نوجوان نسل خاص کر طالبعلم طبقہ منشیات چرس،ایس،افیوم وغیره وغیره اگر ہم تھوڑا سوچ لے تو منشیات یا نشے کے جو عادی زیادہ تر ہمارے سٹوڈنٹس ہے وہ اس بیہودہ عمل میں مبتلا ہے.یہ زہر اج کل ہمارے طالب علموں میں اگ کی طرح پھیل رہا ہے.زیادہ تر لوگ اس سوچ میں پڑے ہیں کہ اس وبا کو اس اگ کو ختم کرنے والے کچھ سپیشل فورسیز ہے.پر میں ان لوگوں سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ اگر اس کی روک تھام کےلے کچھ کچھ سپیشل departments ہے تو اس وقت کہا رہتی ہے جب ہمارے طالب علموں کے ہاسٹلوں تک یہ زہر پہنچایا جاتا ہے ؟اس وقت وہ افیسرز کہا رہتے ہے جب ھمارے جوان بھای ریل کی پٹریوں پر بیٹھ کر افیوم پیتے ہے.؟وہ ادارہ کہا ہے جو کہتے ھیں کہ ھم اس کو روکینگے. اپ کے آفسز کے کے قریب اس کی جو فکٹریاں ہے جہاں یہ زہر تیار ھوتا ہے اس وقت اپ کے فورس کہا رہتی ہے؟کیا اپ لوگ ساری عمر خرام کی کماٸ کھاے گے .کیا ساری عمر اپ کو لوگ خبر دیتے رہیں گے؟خود بھی کچھ انویسٹیگیشن کرے گے یا نہیں؟اس باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس اگ اس زھر کو پھیلانے میں اور جوان نسل کو برباد کرنے میں اس ڈیپارٹمنٹس کے خود اپنے لوگ ہے

اہم بات کی طرف آتے ہیں ۔جو لوگ نشہ بیچتے ہیں ان کو یہ احساس نہیں کہ اس سے لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے ۔نوجوان نسل میں بڑھتے ہووے منشیات کے استعمال کی وجہ سے ملک بھر میں ایسے سینٹر ہسپتال بن چکے ہیں جہاں نشہ کے عادی لوگوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ان کو واپس زندگی کی طرف لایا جاتا ہے۔۔آپ نے ہزاروں ایسے لوگوں سے رابطہ کیا ہوگا ۔جو نشے کے عادی ہوتے ہیں اور اگر ان سے یہ سوال کیا جاے ۔کہ تم نشہ کیوں کرتے ہو ۔تمھاری فیملی خاندان بچے لاوارثوں کی سی زندگی جی رہے ہیں کیا تمھیں ان پر ترس نہیں آتا ۔۔تو وہ ایک ہی جواب دے گا ۔۔کہ جی دوست نے نشہ پر لگا دیا تھا ۔۔یا کسی رشتہ دار نے ۔۔لیکن جب آپ پوچھو گے کہ تم نے اس سے کبھی چھٹکارہ پانا چاہا ۔۔تو اس کے پاس کوی جواب نہیں ہوگا ۔۔یاد رکھیے نشہ کے عادی انسان کا علاج تب تک ممکن نہیں جب تک وہ خود نشہ کو نہیں چھوڑنا چاہتا ۔ورنہ جو اس کی زندگی بچانے کی خطیر رقم اور کوشش کرتے ہیں ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جب وہ صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ نشہ کرنا شروع کر دیتا ہے آپ نے اکثر نشئ لوگوں کو گند کہ ڈھیڑ پر کچڑے پر ہی بیٹھے دیکھا ہوگا ۔۔ایسی جگہوں پر ایک عام انسان کا کچھ لمحے رکنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن نشہ کہ عادی لوگ ہمیشہ ایسی ہی جگہوں پر بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ گند پیتے گند کھاتے ان کی رگوں میں بھی وہی گند سراہیت کر جاتا ہے کہ ان کو گٹر پاس بیٹھ کر بھی بدبو محسوس نہیں ہوتی ۔۔ بدبو میں رہنے والے ایک انسان کی سوچ نارمل کیسے ہو سکتی ہے نشہ انسان کو انسان سے حیوان بنا دیتا ہے ۔وہ بچوں کو بیچتے مارتے بیوی کو پیٹتے بھی درد محسوس نہیں کرے گا اکثر ایسے لوگ اپنی ماوں تک بھی کو نہیں چھوڑتے ۔لیکن ایک بات سمجھنے والی ہے ۔کہ نشہ ڈھونڈنے والا سترہ سال کا لڑکا زمین کی تہ سے بھی نشہ ڈھونڈ لیتا ہے جبکہ پولیس نشہ سپلائ کرنے والوں کو نہیں ڈھونڈ پاتی ۔۔کیسے نشہ سپلائ والا جیلوں تک ہسپتالوں تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔۔کیسے صحت مند ہووے نشے کے عادی لوگ پھر سے نشے پر لگ جاتے ہیں ۔۔بظاہر دیکھنے سننے میں یہ عام سا لفظ ہے ڈائیلاگ مکالمہ ہے کہ منشیات کے خلاف جنگ کیسے ۔آپکو شاید یاد ہو کہ منشیات کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے کتنے ایسے انسان قتل ہو چکے اس مافیا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے کئ ایسے لوگ لاپتہ ہو گے ۔۔آخر کیوں کیا یہ مافیا ہماری حکومت کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں کم از کم 67 لاکھ لوگ نشے کے عادی ہیں۔۔کہتے ہیں ہمارے ملک میں منشیات پر قانون بہت سخت ہے ۔۔حیرت ہے اتنے سخت قانون کے باوجود لاکھوں لوگ نشہ کررہے ہیں اور قانون دیکھ کر ان دیکھی کررہا ہے ۔۔

ایک بات ماہرین کا خیال ہے کہ انسان پہلے پہل نشے کو بطور تفریح یا موج مستی استعمال کرتا ہے، جو رفتہ رفتہ اس کی عادت بن جاتی ہے۔ کینیڈا کی مک گیل یونیورسٹی کے ماہرین نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے رضاکاروں کی مدد سے انسانی دماغ کا تجزیہ کیا۔‏رسرچ جرنل میں شائع رپورٹ کےمطابق ماہرین نےرضاکاروں کو اپنےان دوستوں کےساتھ کوکین استعمال کرنے کے لیے کہا جو پہلےسےہی کوکین استعمال کرتےتھے۔ماہرین نے اس عمل کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی،جس کے بعد ان رضاکاروں کے دماغ کا پی ای ٹی اسکین کیا گیا،جنہیں کوکین استعمال کرنےکے لیے کہا گیا۔ ‏اسکین کے وقت ان رضاکاروں کو دوستوں کی وہ ویڈیو بھی دکھائی گئی، جس میں وہ دوستوں کے ساتھ کوکین استعمال کر رہے تھے۔ ماہرین نے اس دوران رضاکاروں کے دماغ کی حرکت کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ انکے دماغ کے وہ حصے جو کسی بھی چیز کی خواہش کرنےکے لیے استعمال ہوتے ہیں، وہ متحرک ہو گئے۔‏ماہرین نے بتایا کہ ہر انسان کے دماغ میں نیورو ٹرانسمیٹر ہوتا ہے، جو انسان کی خواہش اور اس کی تکمیل سے متعلق نظام کا کام کرتا ہے، یہ سسٹم اس وقت متحرک ہو جاتا ہے، جب کسی بھی کام کو پہلے پہل تفریح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ‏ماہرین کے مطابق کئی لوگ کوکین کو پہلے بطور تفریح یا موج مستی کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر وہ اپنے دوستوں یا ارد گرد کے ماحول میں اس کا بار بار استعمال دیکھتے ہیں تو ان کے دماغ کا نیوروٹرانسمیٹر متحرک ہو جاتا ہے، جس کے بعد یہ عمل ان کی عادت بن جاتا ہے۔۔۔اس کے علاوہ بہت سے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایڈز پھیلنے کی سب سے بڑی بیماری نشہ کرنے والے افراد کا سرنجوں کا غلط استعمال ہے ۔خیال رہے ایڈز کا مرض ایک وائرس کے زریعے پھیلتا ہے جو انسانی مدافعتی نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔ایسی حالت میں کوی بھی بیماری جسم میں داخل ہوتی ہے تو مہلک صورت اختیار کر لیتی ہے

آج کل ہمارے ڈراموں میں فلموں میں چینلوں میں شراب اور سگریٹ کو واضع دکھایا جاتا ہے اور اوپر لکھا ہوتا ہے شراب حرام ہے ۔سگریٹ نوشی حرام ہے ۔سمجھ سے باہر ہے نہ ۔کہ جب شراب سگریٹ حرام ہے تو آپ چینلوں پر لوگوں کو پلاتے دکھا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو آپ خود لوگوں کو اس پر لگا رہے ہو ۔کم عمر بچے بچیاں وہ جو دیکھیں گی وہی سیکھیں گے ۔۔پھر جب کہا جاتا ہے کہ نوجوان ڈراموں فلموں سے غلط چیزیں سیکھ رہی ہیں تو ہمارے کچھ مہان لوگوں کا کہنا ہوتا ہے کہ نہیں جی ۔ تربیت تو والدین دیتے اب چینلوں کا کیا قصور ۔۔شاید آپ بھول گے ہیں کہ ایک تربیت معاشرہ بھی دیتا ہے ۔انسان اپنے آس پاس رہنے والوں سے جو دیکھتا ہے وہی سیکھتا ہے وہی کرتا ہے ۔۔۔آپ اپنی ریٹنگ کے لیے اس حد تک گر گے ہو کہ آپ اداکاروں کو ڈراموں میں شراب تک پلاتے ہو ۔۔کہنے کو یہ میرا اسلامی جہموریہ پاکستان ہے اور کرنے کو ہم نے ہر وہ کام کرنا ہے جو اسلام کے خلاف ہو جس سے اسلام نے منع کیا ہو ۔۔۔یا حرام اور ناجائز کہا ہو ۔۔

نشہ کے عادی لوگ اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ایسے ناشکرگزار بندے ہیں جو اس کی عطا کردہ زندگی کی قدر کرنے کی بجائے اسے برباد کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور منشیات فروش ملک و ملت کے وہ دشمن ہیں جو نوجوان نسل کو تباہ کرکے ملک کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں خداراہ اپنے بچوں پہ نظر رکھیں ان کی ہر ایکٹویٹی پر نظر رکھیں ۔۔۔وہ کہاں جارہے ہیں کیا کررہے ہیں ان کے دوست کون سے ہیں کہاں رہتے ہیں ۔یہ باتیں آجکل بہت چھوٹی لگتی ہے کیونکہ آج کہ دور کو جنریشن ماڈرن کہتی ہے اور والدین کا یوں پوچھنا ناگوار گزرتا ہے ان کو ۔۔دور کتنا ہی ماڈرن ہو جاے ایک وقت آتا ہے جب آپ کو پچھتاوا ہوتا ہے کہ والدین ٹھیک کہتے تھے ۔کاش ہم ان کی سن لیتے ۔۔لیکن پھر نہ والدین ہوتے ہیں اور نہ وہ لمحہ ۔۔سواے پچھتاوے کے۔۔

Leave a reply