نواز شریف کب واپس آئینگے؟ ڈی پورٹ کرنا کتنا آسان،کیا لندن کا جوکر بچ گیا؟ اہم انکشافات

0
64

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ بہت ہی اہم مہمان یوکے سے موجود ہیں،لاکمپنی کے روح رواں بیرسٹر راشد اسلم

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ دو لوگوں کے بارے ہمیں خبر چاہئے ہوتی ہے ایک الطاف حسین اور دوسرا نواز شریف، اب پتہ چلا کہ نواز شریف کا ویزہ چھ ماہ کے لئے بڑھ گیا کیا ایسی کوئی بات ہے جس پر بیرسٹر راشد اسلم کا کہنا تھا کہ جی بالکل اگر میڈیکل گراؤنڈ ہوں اور علاج ہو رہا ہو تو چھ ماہ کا مزید ویزہ مل جاتا ہے توسیع ہو جاتی ہے، اس میں ڈاکٹر لیٹر دیتا ہے اور وہ ہوم آفس جاتا ہے، جس کے بعد چھ ماہ کے لئے ویزے میں توسیع ہو جاتی ہے، کرونا کی وجہ سے آجکل مزید اس میں آسانی ہے، آؤٹ گوینگ فلائٹ کے حوالہ سے بھی تشویش پائی جاتی ہے، نواز شریف کے ٹیسٹ یا آپریشن پینڈنگ ہیں اس بیس پر بھی ڈاکٹر نے لکھا ہو گا

مبشر لقمان نے سوال کیا کہ اتنی بڑی کمپنی آپ چلا رہے ہیں، جو شخص ایک رات بھی ہسپتال میں نہیں رہا وہ کتنا بیمار ہو گا جس پر راشد اسلم کا کہنا تھا کہ سننے میں آیا ہے کہ وہ زیر علاج ہیں، انکے ڈاکٹر ہی بہتر کمنٹ کر سکتے ہیں،کرونا وائرس کے زیادہ کیسز ہسپتال میں ہوتے ہیں اس لئے مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ گھروں میں رہیں، نیا سسٹم متعارف کروایا گیا ہے ٹیلی تھون کا، اگر وہ باہر ہیں تو یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ ہسپتال مین ایڈمٹ نہیں کیا جاتا جب تک بندہ زیادہ سیریس نہ ہو، ہو سکتا ہے انکی میڈیکل کنڈیشن میڈیم لیول پر ہو اسلئے انکو ایڈمٹ نہ کیا گیا ہو، ڈاکٹر ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ انکو ایڈمٹ کرنا چاہئے یا نہیں، ویزہ اس حوالہ سے توسیع ہو سکتی ہے،

پاکستانی حکومت نے پچھلے دنوں یہاں کی حکومت سے رابطہ کیا ،یہاں کی حکومت کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ انکو ڈی پورٹ کیا جا سکتا ہے ،ڈبل نیشنلٹی والوں کو بھی یہاں سے ڈی پورٹ کیا گیا، اگر یہاں کی حکومت چاہے تو ڈی پورٹ کر سکتی ہے کچھ میڈیکل گراؤنڈ کا جائزہ لیا جاتا ہے،وزیراعظم نے کہا تھا کہ میں برطانوی وزیراعظم سے بات کروں گا، ایک اور بات کہ یہاں سے جو ڈی پورٹیز ہیں وہ پاکستان نے لینے سے انکار کر دیا ہو سکتا ہے یہ لنکڈ ہو لیکن میں اس پر بات نہیں کر سکتا، اگر یہاں پر وہ اپنے لیگل کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ نواز شریف کا حق ہے کہ وہ کریں، ہوم آفس کے اختیار پر کوئی دورائے نہیں

بیرسٹر راشد اسلم کا مزید کہنا تھا کہ الطاف حسین کے خلاف ٹرائل پینڈنگ میں ہے، پہلے تو یہ تھا کہ جون میں ہو جائے گا لیکن کرونا کی وجہ سے ٹرائل لیٹ ہوا، ہمارے سامنے کوئی تازہ صورتحال نہین جس میں ٹرائل سٹارٹ کیا جائے ابھی تو سارے کیسز پینڈنگ ہین، پاکستان کو حوالگی کے حوالہ سے ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ مشکل کام ہے کیونکہ وہ برٹش نیشنل ہیں، انکے رائٹس مختلف ہیں، انکے حوالہ سے ڈی پورٹ کرنا مشکل کرنا ہو گا، کیسز کے حوالہ سے پراپرٹی کا کیس پینڈنگ ہے،ارجنٹ کیسز اس وقت سنے جا رہے ہیں، کرونا کی وجہ سے، عام کیسز کو نہین سنا جا رہا،

بیرسٹر راشد اسلم کا مزید کہنا تھا کہ الطاف حسین پر را فنڈنگ کے الزام پر برطانوی حکومت کو کوئی ایشو نہین ،وہ اس ملک کے شہری ہیں، پاکستان کے لئے ایشو ہو سکتا ہے برطانیہ کے لئے نہیں ،پاکستان کو سپشیل درخواست دینا پڑے گی اس حوالہ سے، لیگلی سٹرانگ سٹیپ پاکستان کی طرف سے کبھی نہین لئے گئے، انٹرنیشنل فورم پر بہت سے کیسز ہارے پاکستان نے، کیس صحیح نہیں کئے گئے ، وکلاء کی ٹیم صحیح نہیں لی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی حکومت کو انٹرنیشنل لا کے حوالہ سے ایک ڈیپارٹمنٹ قائم کرنا چاہئے، انڈیا نے اس حوالہ سے بہت انویسمنٹ کی ہے، انٹرنیشنل لا کے حوالہ سے انہوں نے خود کو بہت سٹرانگ کیا ہے

بیرسٹر راشد اسلم کا مزید کہنا تھا کہ مین سول کیسز کی بات کر رہا ہوں، پاکستان کو لیگل حوالے سے بہت سارے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے ماضی میں،انٹرنیشنل کورٹ میں سول کیسز ہوتے ہیں، پاکستان کو اچھے لڑکے لا کے رکھنے چاہئے وہ پاکستان کے لئے کام کریں،شہزاد اکبر صاحب وکیل ہیں لیکن وہ بعض دفعہ سیاسی بیان بھی دیتے ہیں، لیگلی بہت سارے بیان اور دعوے انکے غلط ثابت ہوئے،

Leave a reply