نیا پاکستان اور ہماری عوام تحریر : راجہ حشام صادق

0
26

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اس نظام کے نفاذ  کے لیے دیکھا جانے والا وہ  خواب جو ستر سال پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا الحمدللہ ۔ اس چشم فلک نے علامہ محمد اقبال کے اس خواب کو قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں حقیقت میں بنتے ہوئے دیکھا۔

اس خواب کو حقیقت میں بدلنےکے لیے مسلمانوں کو عبرت ناک سزائیں برداشت کرنی پڑھیں ۔ جانیں اور عزتیں تک نہ بچ سکیں ۔ اللہ تعالٰی کی خاص کرم سے پاکستان بنا بھی۔ ہمارے لیڈر جنہیں ہم بابائے قوم بھی کہتے ہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت کی بدلت اور پھر سنبھل بھی گیا۔

ہمارا یہی وطن 60 کی دہائی میں دنیا کے لیے مثال بنا ہوا تھا۔ اسی دوران مارشل لاء کا دور بھی آیا اور جمہوری حکومتیں بھی آئیں مگر ترقی اور استحکام کا سفر نہ رک سکا۔

بد قسمتی سے 80 کی دہائی کے آخر میں وہ لوگ پاکستان کی سیاست بھی گھس گئے ۔ جن کا مقصد صرف اور صرف اپنی پیٹ پوجا تھا۔ بزنس مین ذہن بھی وطن عزیز کی سیاست کی بھاگ دوڑ سنبھالنے لگا۔
ان بزنس مین ذہنوں میں شامل دو خاندان جن کے بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی عرب پتی بن بیٹھے۔اور کیا ہونا تھا ۔ تیری باری میری باری والا سیکول شروع ہوا ۔ ان کے ہر ایڈیشن نے ملکی معیشت کا بیڑا ڈبونا شروع کردیا۔

ان کاروباری ذہنوں نے اپنے مفاد کے حصول کے لیے نوکرشاہی سے ان کا پروفیشنلزم چھین لیا۔ اسی دور میں کرپشن نامی جن نے جنم لیا جس کی دھاک پورے ملکی نظام کے جوڑ جوڑ میں سرا گئی ۔اس وقت سے لے کر اب تلک حالات اس نہج تک پونچ چکے کہ نوکری سے لے کر برتن سرٹیفکیٹ لینے تک کے لیے عملے اور آفیسرز کی جیبین گرم کرنا پڑتی ہیں۔

ایک دستخط جو بامشکل پانچ منٹ کا بھی کام نہیں اس کے لیے بھی مہینے لگ جاتے ہیں ہاں افسر شاہی کی جیب گرم کریں وہی کام پانچ کیوں دو منٹ میں اسی آفیسر کا چپڑاسی آپ کو کرا کے دے دے گا۔ 
جب چیزیں اس قدر خراب ہوں تو ہم کیسے ان کو پلک چھپکتے ہوئے ٹھیک کر سکتے ہیں؟؟

اب ایک اور لیڈر نے اس ملک کو ایک عظیم ملک بنانے کا خواب دیکھا ہے وہ ہمیں بھی وہ خواب دیکھا رہا ہے وہ خواب ہے نیا پاکستان وہ پاکستان جہاں عدل و انصاف کا نظام ہو ایسا نظام جو تمام پاکستانیوں کے لیے برابر ہو وہ نظام جو ریاست مدینہ میں تھا ایک ایسا نظام جہاں ہمارے غریب لوگ بھی اسی معاشرے میں عزت کی زندگی جی سکیں۔

اپنی جدوجہد کے تقریبا پچیس سال بعد کپتان عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ بکھرے ہو ہجوم کو اس نے ایک کر دیا اتنا باشعور کر دیا ہے کہ وہ اب غلط کو غلط کہنے کی جرات کر سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس صیح اور غلط میں دوست اور دشمن میں مکمل طور پر پہچان نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ پچیس سال بعد بھی وقت کا کپتان اکیلا کھڑا ہے۔اور اس قوم کے بچوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہے۔ریاست مدینہ کے ماڈل کی ریاست کا خواب دینے والا کپتان نے تو راستے کا بہتر انتخاب کیا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی کپتان کے اس خواب کو سچ بنانے کے لیے اس کا بھرپور ساتھ دیں آخر یہ ہمارے بچوں کے مستقبل کی جنگ ہے۔منزل تک پہنچنے کے لئے عوام کا ساتھ ضروری ہوتا 

ہماری قوم کو وزیراعظم عمران خان کا نیا پاکستان  فلمی انداز میں بدلا ہو چاہے۔ جو چیزیں تیس سالوں میں خراب ہوئیں وہ کیا ہم ایک سال یا تین سال میں ٹھیک کرسکتے ہیں؟
اللہ تعالٰی ہم سب کا حامی ناصر ہو

@No1Hasham

Leave a reply