بھارت میں اسلاموفوبیا، مسلمانوں سے نفرت کی بازگشت خلیجی ممالک میں بحث جاری

0
34

بھارت میں اسلاموفوبیا، مسلمانوں سے نفرت کی بازگشت خلیجی ممالک میں بحث جاری

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے دارالحکومت نئی دلی میں مارچ کے وسط میں تبلیغی جماعت کے ایک اجتماع کے بعد تبلیغی جماعت کے 4000 سے زیادہ کارکنان کرونا وائرس سے متاثر پائے گئے۔ ملک میں کسی ایک مقام سے کورونا وائرس پھیلنے کا یہ واحد سب سے بڑا واقعہ تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تبلیغی جماعت کا یہ واقعہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی مہم کا سبب بن گیا۔ کئی ٹی وی چینلوں نے اسے ملک میں کورونا پھیلانے کی ایک دانستہ سازش قرار دیا۔ تو کسی نے اس واقعے کو ’کورونا جہاد‘ کا نام دیا۔ بھارت میں کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے ملک کی مسلم آبادی باقی آبادی کو کورونا سے متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے یا مستقبل میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اس سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف کورونا سے متعلق فیک نیوز یعنی غلط معلومات کی ایک لہر چل پڑی۔

ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائے جانے کا اثر یہ ہوا کہ کئی گاؤں، قصبوں اور شہروں میں مسلمان سبزی فروشوں اور دکانداروں سے سودا لینا بند کر دیا گیا۔ کئی رہائشی بستیوں میں مقامی لوگوں نے مسلمانوں کے آنے پر پابندی لگا دی۔ احمد آباد کے ایک ہسپتال میں مسلم مریضوں کے لیے الگ وارڈ بنا دیا گیا اور میرٹھ کے ایک کینسر ہسپتال نے مسلم مریضوں کا کورونا کے ٹیسٹ کے بغیر علاج کرنے سے انکار دیا۔ صورتحال اتنی خراب ہوگئی کہ خود وزیراعظم نریندر مودی کو مداخلت کرنی پڑی۔ گذشتہ اتوار انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ’کووڈ 19 کسی پر حملہ کرتے وقت اس کی نسل، مذہب، رنگ، ذات، زبان اور اس کی سرحد نہیں دیکھتا۔

ان کی اس ٹویٹ کے ساتھ پولیس نے بھی سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر فیک نیوز اور نفرت انگیز پیغامات اور ویڈیوز پر نظر رکھنا شروع کر دی اور بعض جگہوں پر کارروائی بھی کی۔ لیکن انڈیا میں اب مسلمانوں کے خلاف پھیلی نفرت یہاں سے نکل کر خلیجی ملکوں میں بھی پہنچ گئی ہے۔ عرب اور خلیجی ملکوں میں تقریباً 90 لاکھ انڈین شہری کام کرتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں ان کی آبادی کل آبادی کا 27 فیصد سے زیادہ ہے۔

تقریباً دو ہفتے قبل دبئی میں اعلیٰ عہدے پر فائض پریتی گری نے ایک ٹویٹ میں تبلیغی جماعت کے بارے میں کہا ‘یہ کون لوگ ہیں اور ان کا مشن کیا ہے؟ کیا یہ پورے انڈیا میں جراثیمی جہاد پھیلانے کی سازش ہے؟ اگر یہ خود کو حکام کے حوالے نہیں کرتے تو ملک کو بچانے کے لیے انھیں ’انکاؤنٹر‘ میں ہلاک کر دینا ہی واحد راستہ ہے۔‘

پریتی نے ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ ’تبلیغی سنی، دیوبندی دہشت گرد ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ بالی ووڈ سٹار عامر خان بھی تبلیغی سنی دیوبندی ہیں۔ اس کے باوجود ہندو ان کی فلمیں دیکھنے جائیں گے۔‘

ان کی اس ٹویٹ کا متحدہ عرب امارت میں نوٹس لیا گیا اور کسی نے اس کے جواب میں اسے دبئی پولیس کو ٹیگ کر دیا۔ پریتی نے اس ٹویٹ کے بعد اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ لیکن اس وقت تک ان کے خلاف کارروائی کی بات ہونے لگی تھی ،اس کے علاوہ تقریباً ایک ہفتہ قبل سوربھ اپادھیائے نامی ایک ٹوئٹر یوزر کے سکرین شاٹ متحدہ عرب امارات میں پھیلنے لگے۔

سوربھ اپادھیائے کے ٹوئٹر پروفائل (جو اب بند ہو چکا ہے) کے مطابق وہ ایک پولیٹِکل کیمپین مینیجر ہیں اور پروفائل کے مطابق وہ دبئی میں مقیم ہیں۔ دبئی کے متعدد صارفین نے سوشل میڈیا پر پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا کہ ‘سوربھ ہندو مسلم ایجنڈا چلا رہے ہیں اور اشتعال انگیز مواد کو فروغ دے رہے ہیں۔’ پولیس سے شکایات میں کہا گیا کہ کورونا وائرس پھیلنے کا سبب مسلمانوں کو بتا کر بھڑاس نکالی جا رہی تھی۔

اسی دوران سوربھ نے ایک ٹویٹ کیا جس کا سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر بھی ہو رہا ہے۔ اس میں لکھا ہے ‘مشرق وسطیٰ کے ممالک جو کچھ بھی ہیں وہ ہم انڈینز کی وجہ سے ہیں جس میں اسی فیصد ہندو شامل ہیں۔ ہم نے کوڑے کے ڈھیر سے دبئی جیسے شہر کو کھڑا کیا ہے۔ اور اس بات کی عزت یہاں کا شاہی خاندان بھی کرتا ہے

ان سکرین شاٹس کے ساتھ متحدہ عرب امارات کی شہزادی ہند القسیمی نے ردعمل میں ٹویٹ کیا۔

شارجہ کے حکمراں شاہی خاندان کی شہزادی ہند القسیمی نے سوربھ اپادھیائے کو متنبہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’حکمران شاہی خاندان انڈیا سے بہت قریب ہے۔۔۔ لیکن آپ کا یہ برتاؤ قابل قبول نہیں۔ یہاں سبھی کو ان کے کام کا پیسہ ملتا ہے۔ کوئی مفت میں کام نہیں کرتا۔

’آپ اس سرزمین سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں اور آپ اسی کی تضحیک کر رہے ہیں۔ آپ کی تضحیک کا جواب دیا جائے گا

اس سے شہزادی ہند القسیمی خبروں کی زینت بنی رہیں اور انھوں نے بعد میں انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے سب کو پیار محبت سے متحدہ عرب امارات میں رہنے کی تلقین کی۔

انڈیا میں مسلسل مسلم مخالف خبروں کے نتیجے میں خلیجی ملکوں نے سوشل میڈیا پر سرگرم حکمراں بی جے پی اور ہندوتوا حامی عناصر کے پیغامات پر توجہ دینی شروع کی۔

اسی دوران بنگلور سے بی جے پی کے رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ کا عرب خواتین کے بارے میں 2015 کا ایک نسل پرستانہ اور جنسی طور پر ہتک امیز ٹویٹ زیر بحث آگیا۔

سوریہ نے یہ ٹویث اگرچہ ڈیلیٹ کر دیا لیکن تب تک عرب ممالک کے کئی اہم کارکنوں نے اس کا سکرین شاٹ لے لیا تھا۔ کویت کے سرکردہ اور معروف کارکن عبدالرحمن النصار نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر کو ٹیگ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ‘ایک انڈین رکن پارلیمان عرب خواتین کی توہین کر رہا ہے۔ ہم عرب باشندے ان کی رکنیت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں

https://twitter.com/alnassar_kw/status/1250807432500125697

اس دوران اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی میں انسانی حقوق کی کمیشن نے ایک ٹویٹ میں کہا ’او آئی سی حکومت ہند پر زور دیتی ہے کہ وہ انڈیا میں بڑھتے ہوئی اسلام اور مسلم مخالف جذبات کو قابو کرنے اور حقوق انسانی کے بین الاقوامی ضابطوں کے تحت مظلوم مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے ۔‘

عرب اور خلیجی ممالک میں لاکھوں انڈین شہری صرف ملازمت ہی نہیں کر رہے بلکہ وہ انڈیا کے غیر ملکی زرمبادلہ کا انتہائی اہم ذریعہ ہیں۔ ان ممالک سے انڈین شہری ہر سال تقریباً 50 ارب ڈالر انڈیا بھیجتے ہیں۔

نریندر مودی کی ذاتی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب آنے والے برسوں کے دوران انڈیا میں تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والے ہیں۔

لیکن انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست سے ان کوششوں کو دھچکہ پہنچا ہے۔ شہزادی ہند القسیمی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ’میں اںڈیا کو جاتنی ہوں۔ وہ انڈیا جو گاندھی کا ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے بہت مصائب جھیلے ہیں۔ پوری دنیا کووڈ 19 کی وبا سے تباہ ہے۔ لیکن نفرتوں کا یہ سلسلہ لازمی طور پر بند ہونا چاہیے۔’

معروف دانشور اشوک سوائیں نے لکھا ہے کہ ’کچھ انڈینز اس بات پر پریشان ہیں کہ انڈیا میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے بارے میں خلیجی ملکوں میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ لیکن انھیں انڈیا میں ان لاکھوں مسلمانوں کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے جنھیں بار بار اور مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے اور جن کے ساتھ روز بدسلوکی ہو رہی ہے۔‘

آنے والے دنوں میں انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی موجودہ لہر میں کوئی کمی آئے گی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ پہلی بار ہے جب انڈیا میں حکمراں بی جے پی اور ہندوتوا کے علمبرداروں نے یہ محسوس کیا ہے کہ انڈیا کی اندرونی سیاست کے بین الاقوامی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں

Leave a reply