دیوالیہ کے قریب!!! —- ڈاکٹر حفیظ الحسن

پاکستان اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ کرپشن اور لوٹ مار پاکستانی معیشت کے دیوالیہ پن میں اہم ہے مگر بہت سے لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں پیسہ بنانے کا کوئی خاص طریقہ کار نہیں ہے۔ باہر کے ممالک میں بر آمدات سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے نئی سے نئی پراڈکٹس سے کی جاتی ہیں۔سویڈن جیسے چھوٹے ملک کے معیشت پاکستان سے دوگنی ہے جبکہ وہاں کی آبادی 1.5 کروڑ سے بھی کم ہے۔ پیسہ بنانے کا عمل کاروباری ماحول اور صنعتی ترقی سے ممکن ہے۔ گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا کے مصادق۔ پاکستان کی برآمدات کی نسبت درآمدات زیادہ ہیں۔ یہاں روایتی طریقوں سے گندم، گنا اور کپاس اُگائی جاتی ہے۔ ہر سال سیلاب اور قدرتی آفات زراعت کے بڑے حصے کو نقصان پہچاتے ہیں۔ ایک ایسا ملک جو زرعی ہے اور جہاں 40 فیصد روزگار زراعت کے شعبے سے منسلک ہے وہاں سب سے زیادہ نظر انداز یہی شعبہ رہا ہے۔

دوسرے ممالک کی کمپنیاں پاکستان میں کیونکر پیسہ لگائیں گی جہاں نہ کاروباری سہولیات میسر ہیں، نہ ہی سرخ فیتے کی رکاوٹیں دور کی گئی ہیں، اقربا پروری الگ، ریاست کے اندر بندوقوں والے ایک نمبر کے بدمعاش پراپرٹی ڈیلرز الگ۔ اس پر سیکورٹی، دہشتگردی، امن و امان کا نقص الگ۔اور سب سے بڑھ کر بغیر سکلز یا کم سکلز کے لوگ الگ۔ اب ایسے میں کون باہر سے آ کر یہاں فیکٹریاں لگائے گا، یہاں اپنا پیسہ جھونکے گا؟ کیا لاہور میں بیٹھے پاکستان ہی کی کاروباری شخصیات وزیرستان میں جا کر کاروبار کریں گے؟ ماسوائے اّنکے جنہیں شاید وہاں چلغوزے کے درخت نظر آتے ہوں۔

ہماری معیشت نے دیوالیہ نہیں ہونا تھا تو اور کیا ہونا تھا؟ کیا پلاٹوں پر پلاٹ لیکر اور سوسائٹیوں پر سوسائٹیاں بنا کر ملک میں پیسہ آئے گا؟ نہ ہم نے انسانوں پر خرچ کیا نہ انسانوں کے دماغوں پر۔ پچھلی نسل کے نوجوانوں پر ریاستی تجربات کر کے انہیں جنونی بنا دیا گیا۔ یہی نظریات لیکر وہ اگلی نسلوں کو یہ وائرس منتقل کر چکے۔ جہالت ملک کے طول و عرض میں بک رہی ہے اور مزے کی بات یہ کہ وہ جو اس جہالت کے پیشِ نظر زندگی سے تنگ ہیں، وہی اسکی حفاظت پر مامور ہیں۔ اختر لاوا سے لیکر دھوکے بازی سے ہوٹلوں میں روٹی کھانے والی مزاحیہ ویڈیوز ہر شخص کی زبان پر ہیں۔ عقل کی بات کیجائے تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ علم سے ڈر لگتا ہے۔ ہر چیز سازش لگتی ہے۔ ذہنوں پر قفل پڑے ہیں۔ اصل سوچ کا فقدان یے۔ باہر کے ممالک انسانوں پر ، انکے دماغوں پر خرچ کر کے انہیں معاشرے اور دنیا کے لیے کارآمد انسان بناتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں دولو شاہ کے چوہوں کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔ اشرافیہ سے لیکر عوام تک، اونچے اونچے عہدوں پر بیٹھے افسران سے لیکر نیچے کلرک بابوں تک سب کے سب جدید دور کے تقاضوں، بدلتی دنیا کے رجحانات وغیرہ سے لا علم زندہ زومبیاں ہیں۔

سمجھ نہیں آتی کہاں سے شروع کیا جائے، مگر پچھتر سال میں جب انسانوں پر کچھ خرچ نہیں ہوا تو اب ملک محض قرضوں پر تو چل نہیں سکتا۔ سو یہ کمپنی بھی نہیں چلے گی۔ اور کیجئے تجربات ، اور دور رکھیے عوام کو تعلیم ، صحت اور روزگار کے مواقعوں سے۔ اور دیجیے اّنہیں کھوکھلے نعرے، روایتی جملے اور گھسے پٹے نظریات۔ کشتی جب ڈوبتی ہے تو مکمل ڈوبتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پچھلا حصہ ڈوبا اور اگلا بچ گیا۔ بچنا کسی نے نہیں۔ باقی بابوں کی خیر ہو، اُنہوں نے ہمیں سائیں بنا کر اس حالت میں خوش ہی رکھنا ہے۔ سائنس گئی تیل لینے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

Comments are closed.