مزید دیکھیں

مقبول

نجی بجلی گھروں کو سینکڑوں ارب کی ٹیکس چھوٹ کا انکشاف

نجی بجلی گھروں کے مالکان کو 170 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ اور ملک میں سالانہ کھربوں روپے کی بجلی چوری کا انکشاف ہوا ہے۔

نجی چینل کی رپورٹ میں نجی بجلی گھروں کے مالکان کو 170 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ کا انکشاف ہوا ہے، نجی بچلوں گھروں کو منافع والی آمدنی پر ٹیکس چھوٹ دینا ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ دینے کا انکشاف پچھلے مالی سال کی آڈٹ رپورٹ میں ہوا ہے، یہ ٹیکس چھوٹ 220 نجی بجلی گھروں کا کاروبار کرنے والی شخصیات کو دی گئی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ آئی پی پیز توانائی پالیسی اور ٹیکس قوانین کی پاسداری نہیں کر رہے ، آئی پی پیز کی کاروباری سرگرمیوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا گیا، نجی بجلی گھروں کے مالکان نے 2018 سے 2022 تقریبا 168 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ لی، ٹیکس چھوٹ لینے کے باوجود آئی پی پیپز ملک میں بجلی کا نظام اسی طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔

آڈٹ ٹیم کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس حکام اس ٹیکس چھوٹ کی مانیٹرنگ کرنے میں ناکام رہے ہیں،اربوں روپے کی ٹیکس چھوٹ کا انکشاف اس وقت ہوا جب حکومت نے 5 نجی کمپنیوں کے ساتھ بجلی خریداری کے معاہدے ختم کر دیے ہیں، جن میں ملک کی سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ بھی شامل ہے۔”ٹیک یا پے“ کو پاکستان میں ”کیپیسٹی پیمنٹس“ کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں حکومت کو نجی کمپنیوں کو ادائیگی کرنی پڑتی ہے، چاہے وہ کتنی بھی بجلی پیدا کریں اور اسے گرڈ میں منتقل کریں۔وزیرتوانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ دیگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مذاکرات جاری ہیں، اور جلد ہی لوگ اپنے ماہانہ بلوں میں اس کا اثر دیکھیں گے۔ وفاقی وزیرنے تسلیم کیا کہ حکومت کے بجلی کی کھپت کے حوالے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور حکومتوں نجی بجلی گھروں سے زیادہ سے زیادہ معاہدے کئے۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا میں 120 ارب روپے کی بجلی چوری ہونے کا انکشاف بھی ہوا ہے ،اسپیشل فرانزک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ وارسک ڈیم کے علاقوں میں ساڑھے سات ارب اور شبقدر میں ساڑھے سات ارب کی بجلی چوری ہوئی۔پیسکو کی اسپیشل فرانزک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پیسکو پولیس نے 39 کروڑ خرچ کیے لیکن ریکوری 23 کروڑ کئے، علاوہ ازیں پنتالیس کروڑ کی کیش اور بچلی کے سازو سامان کی چوری کا بھی انکشاف ہوا ہے ، بجلی چوری کرنے والے پیسکو ملازمین کیخلاف 1700 انکوائریاں کی گئی۔

تقسیم کار کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین کی جانب سے اربوں روپے کی کرپشن اور غبن کا انکشاف بھی ہوا ہے ، ہم انویسٹی گیشن ٹیم کی تحقیقات کے مطابق پانچ تقسیم کار کمپنیوں کے فنڈز میں ایک سال میں ایک ارب سے زیادہ کی کرپشن کا انکشاف ہواہے ، چار ہزار سے زائد تقسیم کار کمپنیوں کے ملازمین چوری، فراڈ اورغبن میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ تقسیم کار کمپنیوں میں 64 کروڑ روپے کی سرکاری گاڑیوں ، 54 کروڑ سے زائد بجلی کے سازوسامان کا چوری ہوا۔

اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی میں ڈیڑھ ارب روپے کی کرپشن ، گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی کمپنی میں ساڑھے تین کروڑ اور این ٹی ڈی سی میں چھتیس لاکھ کی کرپشن پکڑی گئی ہے۔تقسیم کار کمپنیوں میں ایک سال میں چھیالیس کروڑ کی چوری پکڑی گئی، کوئٹہ الیکٹرک سپلی کمپنی میں تیرہ کروڑ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں تین تین کروڑ کی چوری ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق آڈٹ ٹیموں کی سفارش کے باوجود ملوث افسران اور ملازمین کیخلاف ایکشن نہیں لیا گیا۔رپورٹ کے مطابق ملک میں سالانہ 459 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی، پشاور 30 ارب، لاہور 29 ، حیدرآباد 17 ارب، نوشہرہ 24 ، قصور 19 ، کوئٹہ 14 ارب، خیبر، شیخوپورہ 12 ارب، ڈیرہ اسماعیل اور مردان 11 ، لاڑکانہ، فیصل آباد 9 اور مستونگ، پشین ، خضدار، چارسدہ میں 8 ارب ، اکاڑہ ، رحیم یار خان میں 7 ارب ، خیرپور، سکھر، کشمور، کرم، جنوبی وزیرستان، صوابی اور راولپنڈی 5 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔

بلوچستان کے زیادہ بجلی چوری والے اضلاع میں 99 فیصد، جھل مگسی، آواران 97 فیصد، شیرانی، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، بارکھان 93 فیصد، شہید سکندراباد 96، قلات 94 فیصد ، خاران، کیچ 91 ، ڈیرہ بگٹی، نوشکی پشین 90، واشک میں 79 فیصد، خضدار، زیارت 86، ژوب، موسی خیل میں 77 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے۔انڈپینڈنٹ پاور پلانٹس کا سلسلہ 1994 سے شروع ہوا، آئی پی پی پلانٹس کے مالکان کے کیس سپریم کورٹ میں بھی رہے ، حتی کہ بین الاقوامی عدالتی فورم پر 2012 سے 2015 تک رہے ہیں جسمیں حکومت پاکستان کو اربوں روپے جرمانوں کا سامنا رہا، آئی پی پیز پلانٹس اور حکومت کی توانائی نظام سے جڑے کئی شخصیات پر نیب کے کیس بھی بنے، ان کیس کی مبینہ کرپشن کی مالیت 200 ارب روپے زائد بنتی ہے جس میں سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف کا نام سرفہرست ہے۔

ٹاسک فورس اور آئی پی پی مالکان کے درمیان معاہدے کی تفصیلات کابینہ میں پیش کرنے کے بعد حبکو، لال پیر پاور لمیٹڈ، صبا پاور، روس پاور اور اٹلس پاور کو ان آئی پی پیز میں شامل کیا گیا جن کے معاہدے ختم کیے جائیں گے۔ ان 5 آئی پی پیز سے 2400 میگاواٹ کے معاہدوں کے خاتمے کے بعد اب یہ بجلی نظام کا حصہ نہیں رہیں گے کیونکہ این ٹی ڈی سی نے بھی ان سے ٹیک اینڈ پے کے طریقہ کار کے تحت بجلی خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔

ایک ٹاسک فورس کے عہدیدار نے بتایا کہ آئندہ ہفتے 18 مزید آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت شروع کی جائے گی جن کی مجموعی کیپسٹی 4267 میگاواٹ ہے اور یہ بھی 1994 اور 2002 کی بجلی کی پالیسیوں کے تحت وجود میں آئے تھے، ان سے بھی بجلی ٹیک اینڈ پے موڈ یعنی جتنی بجلی لی جائے گی اتنی ہی ادائیگی کی جائے گی اور انہیں کیپسیٹی پیمنٹ ادا نہیں کی جائے گی۔حکومتی ادارے پرائیوٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق ملک میں فرنس آئل پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی 19، پانی سے چلنے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے والے پلانٹس تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس پانچ ، سورج کی روشنی سے چلنے والے پلانٹس 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاہدوں کے خاتمے سے عوام کے لیے بجلی کی قیمت کم ہو گی، حقائق بتاتے ہیں کہ عوام کو کوئی خاص ریلیف نہیں ملے گا، اب بڑا سوال یہ بھی ہے کیا اس سے حکومت کو کئی سو ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں بچت ہو گی جس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔کپیسِٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں تو ایسے وقت میں ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔

موبائلز فونز کی درآمدات میں کمی، چینی کمپنی پاکستان آ گئی

اسلام آباد ہائیکورٹ: ججز کی سنیارٹی کیخلاف 5 ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد

پاکستان میں پہلے روزے کی ممکنہ تاریخ سامنے آگئی

سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ، نئی قیمت 3 لاکھ 3 ہزار