نوجوان نسل اسلام سے دور کیوں ہے تحریر: ملک ضماد

0
65

اللّٰہ رب العزت کا شکر ہے جس نے ہمیں ایک سچے دین سے نوازا،
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے ۔۔
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا ۔۔
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں۔ ۔۔
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا۔۔

آج کا نوجوان دین سے دور کیوں ہے؟ پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آج کا نوجوان دین سے خود دور ہوا یا اسے دین سے دور کیا گیا ، کیونکہ خود دور ہو جانے اور دور کر دینے میں بڑا فرق ہے ۔۔۔
کوئی فرد کسی گروہ یا کسی جماعت کو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو اس گروہ ، جماعت کے لوگ اس فرد کےلئے رول ماڈل کا کام سر انجام دیتے ہیں۔ وہ انھیں لوگوں کی حرکات سے اثر لیتا ہے اور بالآخر ان لوگوں کی طرح ہی ہو کر رہ جاتا ہے ۔۔۔
دین اسلام کے خلاف سازش آج سے یا کچھ عرصہ قبل سے نہیں بلکہ اس سازش کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب برصغیر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے دور کا آغاز مختلف مسالک کی دینی درسگاہوں اور تدریسی کے جدا گانہ قیام سے ہوا تھا ۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات تھی اس دور میں مختلف مکاتب فکر کے جدا جدا مدارس وجود میں آ گئے ، ان درسگاہوں سے تعلیم پانے والے طالب علم ایک مخصوص ماحول میں تحصیل علم کے بعد جب باہر نکلے اور مسند علم و ارشاد پر فائز ہوئے تو ان کے دل و دماغ اسی مسلک کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے اور انکے اعمال و کردار پر اس وابستگی کی گہری چھاپ نمایاں تھی ، علماء کی یہ کھیپ مساجد کے محراب و منبر سے دین کے بنیادی مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے اپنے مسلک کا پرچار کرنے لگے ،
بقول اقبال ~
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا ۔۔
کہاں سے آئے صدا لاالہ الااللہ ۔۔۔
اس طرح علماء ایک دوسرے کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بنانے لگے، اور مسلکی رواداری کے برعکس انتہا پسندی جڑ پکڑ گئی۔۔
پھر فرقہ پرستی اور تفرقہ پروری کی آگ بھڑک اٹھی ، جس سے انتشار فتنہ و فساد اور نا اتفاقی نے جنم لیا اور وحدت ملی کے تصور کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، نتیجتاً امت گروہوں اور دھڑوں میں بٹ گئی، اس سے اسلام کی اجتماعی حیثیت ضعف و انحطاط کی زد میں آ گئی ۔
دوسری طرف برطانوی استعمار نے برصغیر میں وارد ہو کر سب سے پہلا تخریبی کام یہ کیا کہ مسلمانوں کا وہ نظام تعلیم جو مدت سے یہاں رائج تھا اس نظام تعلیم کو تباہ کر دیا ایسا کرنے میں ان کے اپنے سامراجی عزائم کار فرما تھے ، عام تعلیم کو لا دینیت کے رنگ میں رنگ دینے سے مسلمانوں کی شاندار اقدار زوال پزیر ہو گئیں ۔۔
آج سے ڈیڑھ سو سال قبل تک مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی تعلیم کے مدارس ایک ہی ہوتے تھے۔اور جدا گانہ نظام تعلیم کا کوئی تصور موجود نہ تھا ، ایک ہی درسگاہ سے طلبا کو سائنس ، ریاضی، فلسفہ، منطق ، حدیث و قرآن اور فقہی علوم پڑھائے جاتے تھے، گویا دینی اور عصری علوم و فنون ایک ہی نصاب کا حصہ تھے، انگریز کے شاطر دماغ نے اپنی ریشہ دوانیوں سے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سیکولر نظام تعلیم ملک بھر میں رائج کر دیا اقبال اس نظام کے بارے میں فرماتے ہیں ~
شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے۔۔
سبق شاہین بچوں کو دے رہا ہے خاکبازی کا۔۔۔
ایسے نظام تعلیم سے عالم اسلام میں کوئی رومی، رازی ، فارابی، جامی اور ابن رشد جیسا ہمہ جہت عالم، مفکر اور دانشور کیسے پیدا ہو سکتا تھا ؟ لہذا نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ دینی اداروں سے فارغ التحصیل علماء مولوی تو بن گئے جن کا کام نکاح خوانی اور مردوں کی تجہیز و تکفین کے علاؤہ کچھ نہ تھا,
لیکن علمی دنیا پہ حکمرانی کے لئے سکالر نہ بن سکے ، ایک زمانہ تھا کہ مولوی کا لفظ آج کے پی ایچ ڈی اور علوم و فنون کے ماہر کے مترادف تصور کیا جاتا تھا۔۔
تاریخ میں ملا علی قاری کے پائے کے محدث اور عبد الرحمٰن جامی جیسے فقیہہ کا زکر بڑے احترام سے ملتا ہے جو اپنے زمانے میں ملا کہلایا کرتے تھے ، آج ملا کا لفظ تحقیر و نفرت کی علامت بن گیا ہے ۔۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ دینی مدرسوں کے فاضل علماء نورو بشر اور حاضر و ناظر جیسے موضوعات پر تو گھنٹوں تقریر کر سکتے ہیں لیکن ان سے اسلام کے معاشی نظام ، بین الاقوامی تعلقات، اقوام عالم کے ساتھ جنگ و صلح کے ضابطوں اسلامی تہزیب و ثقافت، سیاسی پالیسی ، اسلامی تعزیرات اور اسلامی معاشرت کے ضابطوں کے بارے میں اظہار خیال کرنے کو کہا جائے تو وہ پانچ منٹ سے زیادہ کسی موضوع پر نہیں بول سکتے ، یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل دینی علوم سے بے بہرہ اور فرقہ پرست علماء سے حد درجہ بے زار نظر آتی ہے ، کیونکہ ان کے نزدیک بقول اقبال ~
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔۔؟
آخر میں یہی کہوں گی کہ اگر ہمیں دین کے ساتھ سچی لگن ہے تو ہمیں اپنی انا کو بھول کر دین اسلام کے لئیے ایک ہونا ہو گا ، دین رہ گیا تو ہمارا مقام رہے گا ورنہ ہم نہ دنیا کے رہیں گے نہ عقبیٰ کے ۔۔
بقول اقبال ~
قو م مذہب سے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں۔ ۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ~
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

Leave a reply