نور مقدم کیس کے حوالے سے چونکا دینے والے حقائق . تحریر: نوید شیخ

0
54

جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں ۔ نور مقدم کیس کے حوالے سے چونکا دینے والے حقائق سامنے آرہے ہیں ۔ ۔ ایک ایک کرکے اس سفاک قاتل ظاہر جعفر کے اردگرد کے لوگ اب سامنے آرہے ہیں اور جو انکشافات ہورہے ہیں ۔ اس کے مطابق کوئی شک نہیں ہے کہ ظاہر جعفر ایک وحشی ، بے غیرت اور ظالم انسان ہے ۔

۔ اب یہ معلوم ہوا ہے کہ ظاہر جعفر کے قریبی دوست اس کے اس مزاج سے اچھی طرح واقف تھے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ظاہر جعفر نے اپنے بھائی حمزہ پر بھی ایک بار گلف اسٹک سے حملہ آور ہو چکا ہے ۔ پھر یہ شخص اپنی ماں پر بھی تشدد کر چکا ہے ۔ برطانیہ میں بھی ایک لڑکی پر تشدد کر چکا ہے جس کے نتیجے میں یہ برطانیہ سے نکالا گیا ۔ ۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ شراب نوشی کی لت میں مبتلا ہے ۔ اور یہ شخص اتنی شراب نوشی کرتا تھا کہ ہوش کھو بیٹھتا تھا ۔ ۔ اس شخص کی شخصیت ایسی تھی کہ یہ گندے لوگوں میں رہا کرتا تھا ۔ اس کے دوست بھی اسی قماش کے تھے ۔ پھر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نور مقدم کی دوست ہیں زہرا ۔۔۔ کو بھی سفاک قاتل گندے میسج کرتا تھا ۔

۔ یہ وہ تفصیلات ہیں جو مختلف لوگ اپنے وی لاگز اور صحافی ٹویٹ کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ مجھے کسی نیت پر شک نہیں ہے ۔ مگر میرا ماننا یہ ہے کہ یہ سب وہ باتیں ہیں جن سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ وہ پاگل ہے ۔ تو ان تمام صحافیوں کو میں یہ کہوں گا کہ جانے انجانے میں ان سے غلطی ہو رہی ہے ۔ ان کو سمجھنا چاہیئے کہ ظاہر جعفر کے دوست اور ماں باپ جو اب بہت صاف ستھرے اور معصوم بن رہے ہیں یہ جان بوجھ کر ایسی چیزیں سامنے لارہے ہیں کہ ظاہر جعفر کو جب عدالت میں کیس چلے تو ریلیف ملے ۔ حالانکہ یہ open and shutکیس ہے کہ ایک معصوم بچی تشدد ہوتا ہے وہ بے دردی سے قتل کر دی جاتی ہے ۔ اور موقع واردات سے مجرم ، قاتل پکڑا جاتا ہے ۔ ساتھ ہی آلہ قتل بھی برآمد ہوجاتا ہیں ۔ پھر بھی میری سمجھ سے باہر ہے کہ پولیس کس چیز کا انتظار کررہی ہے ۔ اور یہ ہی بات نور مقدم کے دوست اور باقی لوگوں کے ذہن میں بھی ہے ۔ کہ اگرچہ پولیس نے ملزمان کو گرفتار تو کر لیا لیکن وہ اسے سزا دینے میں تاخیر کر رہے ہیں۔۔ اس روز روز کے ریمانڈ سے کیا ہو گا؟ جب تمام شواہد موجود ہیں تو اس کے خلاف مقدمہ چلائیں تاکہ اسے جلد سے جلد سزا ہو۔۔ یہ بھی اہم چیز ہے کہ پولیس نے ابھی تک دہشتگردی کا مقدمہ اس گھناونے شخص کے خلاف درج نہیں کیا ہے ۔ حالانکہ معاشرے میں جو اس سے دہشت کی فضا قائم ہوئی ہے ۔ یہ ہونا چاہیے تھا ۔

۔ پھر یہ چیز بھی اس بات کو تقویت دے رہی ہے کہ جب ظاہر جعفر کو پولیس عدالت لے کر جا رہی تھی تو پولیس والا کہہ رہا تھا کہ بڑا معصوم بچہ ہے ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں پولیس کو اس کے خاندان نے کوئی چمک تو نہیں دیکھا دی ہے جو پولیس والے اس سفاک قاتل معصوم بچہ کہہ رہے ہیں ۔ ساتھ ہی جب یہ عدالت میں لایا گیا تو یہ بالکل ٹھیک اور نارمل دیکھائی دیا ۔ کیا پولیس کسی قاتل کے ساتھ ایسا رویہ رکھتی ہے ۔ آپ سب مجھ سے بہتر جانتے ہیں یہاں تو چھوٹے چھوٹے کیسوں میں پولیس ملزم کی کھال اتار کر رکھ دیتی ہے ۔ تو پھر اس کیس میں کیوں اتنا رحم اور اچھے الفاظ کا چناؤ پولیس کو یاد آرہا ہے ۔ اس حوالے سے ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطا الرحمان ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ کیا کہیں اس کیس کو جان بوجھ کر تو نہیں آہستہ آہستہ آگے بڑھایا جا رہے کہ فائدہ ظاہر جعفر کو ملے سکے ۔ اور لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کو بھول جائیں ۔

۔ ابھی اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ظاہر جعفر کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ وڈیو میں شادی کی ایک تقریب میں ملزم باری باری لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ پولیس اس ویڈیو کے ذریعے ملزم کے دوستوں کے اس گروپ سے سے رابطے کی کوشش کرے گی۔ جس سے ملزم کے 27 سالہ نور مقدم کا سفاکانہ انداز میں سر تن سے جدا کرنے کا پس منظر سامنے آ سکے گا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ پولیس تو گونگوں سے بھی چیزیں اگلوا لیتی ہے ۔ مجرم ان کے ہاتھ میں اس سے انوسٹی گیشن نہیں کی جا رہی ہے ۔ بلکہ چیزوں کو گول گول گھمایا جا رہا ہے ۔

۔ پھر پولیس نے ملزم کا بیرون ممالک انگلینڈ اور امریکہ سے بھی کرمینل ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے متعلقہ اداروں سے رابطے کرنا شروع کر دیا ہے ۔ یہ اچھی چیز ہے ۔ پر کیا آپ کو نہیں معلوم کہ یہ تفصیلات آنے میں کتنے دن لگیں گے۔ حالانکہ نور مقدم کے وکیل آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ نور کے خاندان پر پریشر ڈالا جا رہا ہے کہ معاملات کو کورٹ سے باہر
settle کرلیا جائے ۔ یعنی دیت اور قصاص کے تحت ۔ تو ہماری پولیس کو ذرا اپنے ہاتھ پاؤں تیزی سے چلانے چاہیں ۔ اور اس سفاک قاتل ظاہر جعفر کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے ۔ اوراس قاتل سے بالکل وہ ہی سلوک کرنا چاہیئے جس کا یہ حق دار ہے ۔ یہ نہیں کہ یہ امیر ، انگریزی بولتا ہے تو ہم اس کو معصوم بچہ کہیں ۔ یہ سفاک قاتل ہے جس نے ساری واردات پوری پلاننگ سے کی ہے ۔ کیونکہ 19 جولائی کو اسکا ٹکٹ تھا امریکہ جانے کا اور یہ ایئر پورٹ گیا بھی وہاں سے یہ واپس آیا اور اگلے دن نور کا قتل کر دیا ۔ ملزم کے گھر سے اس کا پاسپورٹ اور بیرون ملک جانے کے لیے لیا جانے والا ٹکٹ بھی بازیاب ہوا ہے۔

۔ دوسری جانب ملزم ظاہر جعفر کے والد نے گرفتاری کے بعد کہا ہے کہ وہ نور کے والد کو ذاتی طور پر جانتے ہیں اور وہ ان سے درخواست کریں گے۔ کہ یہ ایک بہت ہی گھناؤنا جرم ہے اور میں چاہتا ہوں کہ انصاف ہو۔

۔ بڑی اچھی بات کی ہے مگر یہ ان کو اب کیوں یاد آئی ہے ۔ دراصل ابا جی اب پکڑے گئے ہیں تو بول رہے ہیں ہمیں پتہ نہیں تھا ماں باپ کو ان کا بیٹا کس قسم کا ، کس قماش کا اور کس کردار کا حامل ہے ۔ حالانکہ اس واقعہ کے دوران بھی گھر کے ملازم باربار کال کرکے بتا رہے تھے ۔ کہ ان کا بیٹا کیا کر رہا ہے ۔ کاش ان معصوم والدین کو اس وقت خیال آیا ہوتا اور یہ اپنے ملازمین کو حکم دیتے کہ بیٹے کو پکڑ کر ذبردستی کسی کمرے میں بند کردیتے ۔ قابو کر لیتے ۔ لڑکی کو کسی طرح گھر سے باہر نکل دیتے ۔ بھاگا دیتے ۔
ظاہرجعفر اس گھر میں اکیلا تھا اور ملازم چار تھے اور ظاہر کوئی عثمان مرزا جیسا بہت موٹا تازہ بھی نہیں ۔ چار ملازم باآسانی اس کو قابو کر سکتے تھے ۔

۔ دوسرا میرا یہ پوائنٹ ہے کہ ظاہر جعفر کی ماں کو جب پتہ چل گیا تھا تو اس نے پولیس کو بلانے کی بجائے کسی اور کو کیوں بلایا ۔ اگر ظاہر جعفر کی ماں نے ہی بروقت پولیس کو اطلاع دی ہوتی اس معصوم بچی کی جان بچ سکتی تھی ۔ کیونکہ اگر ظاہر جعفر کی نشوں کی لت اور باقی تمام ہسٹری کو صحیح مان بھی لیا جائے۔ تو پھر تو یہ چیز ذہن میں آتی ہے کہ ماں باپ کو بالکل معلوم تھا کہ ان کا بیٹا کس حد تک گر سکتا ہے اور کیا کر سکتا ہے ۔ اس لیے میری نظر میں ظاہر جعفر کی ماں باپ بھی کم مجرم نہیں ہیں جو انھوں نے انتظار کیا کہ ایک معصوم پھول کو کچل دیا جائے ۔ ۔ کیونکہ نور دو دن سے ظاہر جعفر کے حس بے بجا میں تھی ۔ اس نے بھاگنے کی بھی کوشش کی ۔ یہ بات بھی ملازموں نے ماں باپ کو بتائی ۔ پھر ان ماں باپ کے دل میں رحم نہیں آیا کہ ان کا بیٹا کسی کی بیٹی کے ساتھ کیا ظلم اور زیادتی کر رہا ہے ۔ یہاں تک کہ آپ دیکھیں جب نور مقدم اور ظاہر جعفر کے مشترکہ دوست نور کو بچانے کے لیے ظاہر جعفر کے گھر پہنچے تو نوکروں نے ان کو گھر میں داخل نہیں ہونے دیا ۔ ۔ اس کیس میں اگر ملازمین ہی پولیس کو بروقت اطلاع دے دیتے تو قتل روکا جا سکتا تھا۔

۔ یہ سب اب بڑے معصوم بن رہے ہیں چاہے ظاہر جعفر کے ماں باپ ہوں ، ملازمین ہوں یا ظاہر کے دوست ۔ پر سچ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے پولیس کو نہیں بتایا کہ اندر کیا ہو رہا ہے ۔ دیکھا جائے تو ہمسایوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پھر پولیس پہنچی ۔ یعنی نہ ملازمین ، نہ ظاہر جعفر کے ماں باپ ، نہ ہی اس کے دوست حالانکہ ماں باپ اور ملازمین کو پل پل کا پتہ تھا کہ اندر کیا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ ظاہر جعفر کے ماں باپ ، ملازمین ، دوست اب سب اپنے آپ کو بہت پاک صاف اور جو معصوم ثابت کر رہے ہیں ۔ میری نظر میں یہ بھی اس گھناونے واردات کاحصہ ہیں کیونکہ یہ چپ رہے ۔ دیکھتے رہے ۔ سنتے رہے ۔ اور قتل ہونے دیا ۔

Leave a reply