بین جوائے لینڈ مہم پر اعتراض اور جواب :از طہ منیب

0
32

گزارش ہے کہ آج کی جدید دنیا نے شخصی و انفرادی آزادی کے نام پر خلاف فطرت و شرع معاملات جیسا کہ ہم جنس پرستی و دیگر کو نا صرف اپنے ہاں قانونی حیثیت دی ہے بلکہ ڈیجیٹل میڈیا و اینٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں باقاعدہ تمام قسم کی موویز و سیزنز میں اس ایجنڈے کی (جسے LGBTQ+ کہا جاتا ہے) ترویج سے مشروط کیا ہے کہ کچھ نا کچھ اس مسئلہ کو لازمی ہائی لائٹ کیا جائے۔ باقاعدہ طور پر بننے والا مواد اس سے ہٹ کر ہے۔ پہلے پہل مغربی سینما جو ہالی ووڈ کے نام سے جانا جاتا ہے اس نے اس گند کو پھیلانے کا کام کیا بعد ازاں بھارتی سینما بالی ووڈ اور اب یہ جرات پاکستانی فلم انڈسٹری کو بھی ہوگئی ہے۔ سرمد کھوسٹ پاکستانی سینما میں متنازعہ موویز بنانے کے حوالے سے معروف ہیں جنکی اکثر موویز سینسر بورڈ میں آکر پھنس جاتی تھیں اور اکثر نکل بھی جاتی تھیں۔ لیکن حیران کن طور جوائے لینڈ نامی مووی جو دو لڑکوں کی محبت و شادی پر مبنی سٹوری ہے یہ نا صرف بن گئی بلکہ باہر کے سینما سے متعدد ایوارڈز لینے کے بعد بغیر کسی تردد کے سینسر بورڈز سے اپروول کے بعد 18 نومبر کو پاکستانی سینماؤں میں ریلیز کیلئے تیار ہے۔

اللہ کی بغاوت اور غیض و غضب کا شکار قوم لوط کا عمل غلیظ (جسکے مرتکب فاعل و مفعول کی سزا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حدیث کے مطابق قتل ہے) کی ترویج پر مبنی یہ مووی کی ریلیز لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نام پر بنے ملک جسکے آئین کے دیباچہ میں قرارداد مقاصد کے مطابق اس ملک میں قرآن و سنت و آئین سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا وہاں پہلے ٹرانس جینڈر بل کے نام پر آئین و قانون میں نقب اور اب سرعام اسکی ترویج کی جرات یقینا سینسر بورڈ و حکومت اور اسکے بعد مذہبی جماعتوں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ اس فتنے کے سدباب کیلئے #BanJoyland مہم پلان کی تو الحمد اللہ پوسٹرز و ویلاگز کے ساتھ ٹویٹر پر ٹرینڈ بھی پینل ہوگیا ،کچھ نا کچھ سوشل میڈیا پر آگاہی و ٹویٹر سپیس بھی ہوگئی، یقینا یہ ناکافی ہے اسکی روک تھام کیلئے سوشل میڈیا سے بڑھ کر عدالت کے دروازے کھٹکھٹانے اور سڑکوں پر نوجوانوں کے ہمراہ احتجاج کے ذریعے اس بد فعلی کو روکنے کی پوری کوشش اسکے بین ہونے تک کی جائے گی ان شا اللہ۔

اب اس مہم پر کافی احباب کا اعتراض آیا ہے کہ آپ تو بذات خود اسکی پروموشن کا باعث بن رہے ہیں تو گزارش یہ کہ ہمارے نا کرنے سے مووی ریلیز ہو کر رہے گی اور اسکے بعد اسکی ویوورشپ یقیناً لاکھوں میں ہوگی۔ اگر اس سے قبل ہی اسکی روک تھام کر لی جاتی ہے تو یقیناً یہ فائدہ مند ہوگا۔ اس مہم سے زیادہ سے زیادہ چند سیکنڈ کے پرومو تک پہنچ ہوگی لیکن اصل گند مووی کی ریلیز سے بچا جا سکتا ہے۔ خلاف قانون و آئین و اسلام مووی کی روک تھام کی مہم کوئی پہلی مہم نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس طرز کی مہمات کامیاب ہوئی ہیں جن میں اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر بھارتی و دیگر فلمز کی نمائش پر پابندی لگی۔
باقی ہر برے کام کے بارے میں یہ سوچا جانے لگے پھر تو اچھائی کی ترویج اور برائی روک تھام ناممکن ہو جائے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ ہمارا مذہبی فریضہ ہے کہ برائی کو ہوتا دیکھیں تو استطاعت کے مطابق ہاتھ یا زبان سے روکیں اور اگر ممکن نہیں تو پھر کم از کم دل میں برا جانیں۔ امید ہے کچھ نا کچھ کلئر کر پایا ہوں گا۔ شکریہ

الحمد اللہ یہ تحریر لکھنے کے دوران ہی یہ خوشخبری ملی کہ یہ فلم بین ہو چکی ہے۔ یقیناً یہ معمولی کاوش اللہ کی مدد یہ سے یہ کامیابی ملی۔ تمام احباب کا خصوصی شکریہ۔ جزاک اللہ خیر

Leave a reply