باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کچھ دن پہلے میں نے ایک پروگرام کیا تھا جس میں بتایا تھا کہ او جی ڈی سی میں کس حد تک کرپشن ہو رہی ہے، آج اسکا پارٹ ٹو بتاؤں کہ اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی، نااہلی، غلط فیصلوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا،نقصان ہو رہا، کرپشن کے انبار ہیں، کتنا پیسہ کس کو گیا کیسے لوٹا گیا،
مبشر لقمان آفیشیل یوٹیوب چینل پر اپنے وی لاگ میں مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گیس کی پیداوار ہے کیا، لاگت کتنی آتی ہے، اس کے برعکس امریکہ میں کتنی لاگت آتی ہے، حکومتی وزرا میڈیا پر آ کر سرعام جھوٹ بولتے ہیں، وزرا نوازشات کی برسات کر رہے ہیں، گیس کی پیداوار میں گھپلے کیسے ہو رہے، ماری پٹرولیم لمیٹڈ کی نوے فیصد پیدوار اور آمدنی ماری گیس فیلڈ سے آتی ہے ، ایکس اون،اسکا تجارتی نام ایس او ہے، پاکستان میں فی مکعب فٹ گیس کی پیداواری لاگت چھ لاکھ ڈالر ہے، امریکہ میں دو سے تین لاکھ ڈالر ہے، پاکستان میں گیس کی قیمتیں اس لئے زیادہ کیونکہ پیدواری لاگت دگنا ہے، یہ انتظامیہ کی نااہلی ہے،زرون گیس فیلڈ کی ماہانہ آپریٹنگ لاگت چار لاکھ ڈالر ہے، جبکہ امریکہ میں صرف 30 ہزار ڈالر لاگت ہے،ماری پٹرولیم لمیٹڈ کے اخراجات سولہ فیصد یا امریکہ سے بھی آگے ہیں، اس میں قصور حکومت یا موجودہ نظام کا ہے، نہ کمپنی میں بہتری لا سکے، نہ اپنی پرفارمننس بہتر کر سکے، ماری پٹرولیم میں ڈرلنگ کے اخراجات ایم پی ایل بین الاقوامی معیار سے بہت زیادہ ہیں دس ہزار فٹ کنویں کی لاگت 50 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، اسے مکمل ہونے میں ایک سال لگتا ہے، امریکہ میں ایک کنویں کو 3 ملین ڈالر اور تین ہفتے لگتے، یہ فرق نہ صرف ماڑی پٹرولیم کی ناکامیوں نااہلی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ ممکنہ مسائل کی نشاندہی بھی کرتا ہے،
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے یکم جنوری کو گیس کی کرپشن پر پروگرام کیا جس پر بہت سے لوگوں نے رابطہ کیا میں نے بتایا تھا کہ کیسے مہنگی گیس پیدا کی جا رہی جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑ رہا،حکومتی عہدیداروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی کہ احتساب کریں بلکہ مجھے چپ رہنے کا کہہ دیا گیا، میں چپ نہیں رہوں گا، سوال بھی اٹھاؤں گا اور کرپشن بھی بے نقاب کروں گا،
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ وسائل بے دریغ استعمال کئے جاتے ہیں، کون تھا جو کرپشن کے بازار گرم کر کے بیٹھا تھا ، ایک شخص جو ایگزیکٹو ڈیپارٹمنٹ میں آتا، فہیم حیدر ماری پٹرولیم کے سی ای او ہیں،یہ 2020 سے ابتک مسلسل یہاں موجود ہیں.تین سال کے لئے انکو لگایا گیا تھا، 12 اگست کو دوبارہ بورڈ آف ڈائریکٹر نے ایم ڈی مقرر کر دیا، دوبارہ تقرری پھر تین سال کے لئے کی گئی، اس شخص پر کتنا پیسہ خرچ کیا گیا، کمپنی نے حکومت کے خزانے سےپیسہ نکلوایا اور حکومت نے پھر عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوایا، سال 2023 میں فہیم کو جو تنخواہیں اور پیسے ملے چار لاکھ چورانوے ہزار ڈالر تنخواہوں اور دیگر کی مد میں ادا کئے گئے جو پاکستانی 13 کروڑ سے زائد ہیں، 2024 میں 27 کروڑ 67 لاکھ سے زیادہ ادا کئے گئے، یعنی ایک سال میں ہی فائدوں میں سو فیصد سے زیادہ اضافہ ہو گیا، اس ادارے میں 803 لوگ ایگزیکٹو میں شمار کئے جاتے ہیں جن کو 2023 میں 8 بلین سے زائد تنخواہیں و دیگر دی گئیں، 2024 میں ایگزیکٹو نے عیاشی کی زندگی گزاری کیونکہ حکومت ن لیگ کی ہے لہذا لوگوں کو نوازا جاتا ہے،یہ کام مصدق ملک کی نگرانی کے بغیر نہیں ہو سکتا، حکومت کی غیر ضروری نوازشات سرکاری کمپنیوں کا بیڑہ غرق کر رہی ہیں جس کا اثر عام آدمی پر ہوتا ہے.فہیم حید رنے جو تجربہ بتایا وہ اسکا نہیں ہے،
اسلام آباد پولیس کی کارروائی، غیرملکی شہری سے موبائل چھیننے والا گرفتار
بھارتی سپریم کورٹ کا ہم جنس پرستوں کی شادی فیصلے پرنظر ثانی سے انکار