اور جل پری مر گئی تحریر:حبیب الرحمٰن خان

0
33

جل پری بنیادی طور پر ایک افسانوی کردار ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا اوپر کا دھڑ انسانی اور نچلی دھڑ مچھلی کی طرح ہوتا ہے
ہم بھی ایک جل پری کا زکر کرتے ہیں وہ اپنے والدین کی اکلوتی تھی۔ بچپن میں اس کی ہر خواہش کا احترام کیا جاتا اس کی خوشی کے لیے والدین اپنی جان نچھاور کرتے اس کےلباس ، خوراک الغرض اس کی ہر خواہش کو ترجیح دی جاتی اس کے کھلونے جو اس کی خوابوں کی دنیا تھی جب وہ پورا دن ان کے ساتھ کھیلنے کے بعد تھک ہار کر اپنی ماں سے لپٹ کر سو جاتی تو ماں چپکے سے اٹھ کر انھیں ترتیب سے سنبھالتی۔
صبح اٹھنے کے بعد وہ اپنے بابا سے لپٹ کر اپنی ننھی منی خواہشات کا اظہار کرتی تو بابا دھیرے سے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیتے تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ ہوتا اور شام ڈھلے وہ دروازے کی طرف نگاہیں جماۓ منتظر ہوتی۔ جب بابا کے پاؤں کی آہٹ پاتی تو لپک کر دروازہ کھول کر اپنے بابا کے ہاتھوں کو بے چینی سے دیکھتی۔ اور اپنی فرمائش کو پا کر خوشی سے نہال ہو جاتی۔
اسی طرح شب و روز گزر رہے تھے کہ ایک دن گھر میں کچھ اجنبی لوگ آۓ جن میں زیادہ خواتین تھیں۔
وہ خواتین اسے کن اکھیوں سے دیکھ رہی تھیں اسے بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ لیکن کچھ نہ سمجھتے ہوۓ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
مہمانوں کی روانگی کے بعد جب وہ باہر صحن میں گئی تو اپنی ماں کو اس کی طرف دیکھنا عجیب سا لگا آج سے پہلے ماں نے اس طرح نہیں دیکھا تھا۔وہ ماں سے لپٹ گئی اور ماں سے پوچھا کہ آج آپ اس طرح کیوں دیکھ رہی ہیں ماں نے گلے سے لگا کر پیار کرتے ہوئے کہا کہ تم جلد ہی اپنے گھر کی ہونے والی ہو۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا اس کی دانست میں تو وہ اپنے گھر میں ہی بیٹھی تھی پھر ماں ایسے کیوں کہہ رہی ہے اس نے ماں کی طرف کچھ نہ سمجھتے ہوۓ غور سے دیکھا اور سوچا کہ شاید ماں تھک گئی ہیں اور اسی لیے ایسی عجیب بات کہہ دی۔ شام کو بابا کے گھر آنے پر اس کی ماں نے اپنے شوہر سے سرگوشیوں میں گفتگو شروع کر دی۔ والدین کے اس رویئے کو دیکھ کر اسے حیرت تو ضرور ہوئی لیکن اپنے تجسس کو دباتے ہوئے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا۔
پھر کچھ ہی شب و روز گزرے کہ ماں نے اسے بتایا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔
اور پھر اس کے کچھ سمجھنے سے پہلے اسے والدین نے نم آنکھوں کے ساتھ ایک اجنبی شخص کے ساتھ وداع کر دیا
ایک اجنبی شخص اور نئے اجنبی گھر میں اجنبی لوگوں کے درمیان یہ سب کچھ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن وہ اجنبی شخص اس سے بے پناہ پیار کرتا اس کا ہر طرح کا خیال رکھتا لیکن گھر کی خواتین کا رویہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ایک دن اس نے ایک سرگوشی سنی کہ اس نے شوہر پر جادو کر دیا ہے وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن گھر میں کھنچاؤ کا سا ماحول پیدا ہو گیا۔
شروع میں تو گھر میں اس سے چھپ کر اس کے شوہر اور نندوں و ساس میں تلخ گفتگو ہوتی لیکن پھر سب کچھ عیاں ہونے لگا۔ ہر بار اس کا شوہر گھر کے افراد کو سمجھانے کی کوشش کرتا کبھی کبھار یہ سمجھانا انتہائی تلخ جملوں پر مبنی ہوتا
لیکن ایک دن جب وہ کچن میں دوپہر کا کھانا بنانے گئی۔ دیا سلائی کے جلاتے ہی پورے کچن میں آگ بھڑک اٹھی اس آگ میں اس کی چیخیں دب کر رہ گئیں
اور جل پری اس آگ میں جل کر خاکستر ہو گئی۔

افسوس ہمارا معاشرتی ترقی یافتہ تو ہو گیا لیکن بہو کو بیٹی تسلیم نہ کر سکا

#حبیب_خان

Leave a reply