عورت کے نام پر بنی عورت آزادی مارچ کیا پاکستانی عورتوں کی نمائندگی کرتی ہے؟ تحریر: سیرت فاطمہ

اسلام نے عورتوں کو حصولِ تعلیم سے لے کر پسند کی شادی تک ہر حق سے نوازہ ہے۔ عورت جب چھوٹی ہوتی ہے تو اُسے باپ کی صورت میں ایک محافظ اور ماں کی صورت میں ایک مخلص سہیلی ملتی ہے جن کی اولاد ہونے کے ناطے وہ اولاد کے حقوق کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ جب تک باپ کے گھر میں رہتی ہے باپ اور بھائی اپنے فرائض نبھاتے ہیں۔ جب عورت بیاہ دی جاتی ہے تو وہی ذمہ داریاں شوہر کے کندھوں پر آجاتی ہیں اب شوہر کا فرض ہے کہ اپنی بیوی کی تمام ضروریات پوری کرے۔ جب عورت ماں کے درجے پر فائز ہوتی ہے تو پاؤں تلے جنت رکھ دی جاتی ہے۔ اسلام نے عورت کو مالی طور پر اتنا مستحکم کیا کہ شوہر کو حق مہر اور نان و نفقہ کا پابند بنا دیا ساتھ ہی عورت کو والدین اور شوہر کی جائیداد میں حصہ دار بھی بنا دیا گیا۔ غرض اسلام تو وہ مذہب ہے جس نے عورت کو نا صرف جینے کا حق دیا بلکہ ایک شہزادی بنا کر باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی صورت میں اتنے محافظ بھی عطاء کر دیے۔
اور یہ تمام حقوق عورتوں کو پاکستان کا آئین بھی دیتا ہے۔ مگر اُسی کے ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ آج بھی بہت سی جگہوں پر خواتین کو وہ تمام حقوق حاصل نہیں ہیں جنکی وہ حقدار ہیں۔ اور اُن خواتین کو اُن کے حقوق ملنے چاہیے۔
سوشل میڈیا سے لے کر زمینی حقائق تک یہ سوال مختلف طریقوں سے ہوتا رہا ہے کہ کیا عورت کے نام پر بنی عورت آزادی مارچ اُن عورتوں کی نمائندگی کرتی ہے جنہیں واقعی حقوق نہیں ملتے؟
اور اکثریتِ رائے کے ساتھ اِس کا جواب ہمیشہ ایک ہی رہا کہ۔۔۔ نہیں!
عورت مارچ بہت سالوں سے منعقد ہو رہا ہے مگر ہر بار وہاں متنازع بینرز، متنازع نعروں اور ڈانس کے سوا کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ عورت مارچ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مارچ بیرون ملک سے لی گئی فنڈنگز پر چلتی ہے اور ہم جنس پرستی کو پروموٹ کرنے کے مشن پر گامزن ہے ایسا تب کہا گیا جب سوشل میڈیا پر عورت آزادی مارچ کی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں کچھ لوگ ہم جنس پرستی کو کھلم کھلا سپورٹ کرتے پائے گئے۔ اِس کے علاوہ ایسی ویڈیوز بھی دیکھنے کو ملیں جن میں اخلاقی دائرے سے یکسر باہر نکل کر نعرے بازی کی گئی مثلاً چیخ چیخ کر "والد سے لیں گے آزادی” جیسے نعرے لگائے گئے۔ "میرا جسم میری مرضی” اور اِس جیسے دوسرے متنازع بینرز تو خیر ہمیشہ سے ہی عورت آزادی مارچ کی ذینت ہیں اور اِس موضوع پر میڈیا میں آواز بھی بلند ہوتی رہی ہے۔
عام مشاہدہ یہ بھی ہے کہ عورت مارچ میں کبھی وزیرستان، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور اندونِ سندھ جیسے پسماندہ ترین علاقوں میں رہنے والی خواتین کے مسائل کی نا تو کبھی بات ہوئی اور نا نشاندھی۔ وہ مزدور خواتین جن کی دیہاڑی اتنی بھی نہیں کہ وہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں، وہ خواتین جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں مگر مختلف معاشی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہیں، وہ خواتیں جنہیں فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، وہ خواتین جن پر واقعی ظلم ہوتا ہے اور وراثت کے حصے سے محروم رکھا جاتا ہے اُن کے حقوق کے لیے آواز تو عورت آزادی مارچ میں کہیں دور دور تک سنائی نہیں دیتی۔
اب سوال یہ ہے کہ جب عورت آزادی مارچ میں پاکستانی عورتوں کے مسائل پر بات نہیں ہوتی، وہاں آنے والوں کا لباس، گفتگو، نعرے اور بینرز بھی اسلام اور پاکستانی ثقافت سے کوسوں دور ہوتے ہیں تو یہ مارچ بھلا کس طرح پاکستانی خواتین کی نمائندگی کر سکتی ہے؟
کیا پاکستانی خواتین والد سے آزادی مانگ رہیں ہیں؟ کیا پاکستانی خواتین مغربی لباس پہنے کی آزادی مانگ رہی ہیں؟ کیا پاکستانی خواتین کو گھریلو کام کاج سے مسئلہ ہے؟
کیا عوت آزادی مارچ نے اُن خواتین کو اُنکے حقوق دلوانے میں کوئی کردار ادا کیا جنہیں واقعی حقوق کی ضرورت ہے؟
کیا مسائل کا حل مردوں کو برا بھلا کہنے سے ممکن ہے؟
ان تمام سوالات کا ہمیشہ "نہیں” میں رہا۔
عورت آزادی مارچ میں آنے والی خواتین کے پاس تو ہر حق، ہر آسائش اور ہر آزادی موجود ہے جن کے پاس کھلم کھلا ڈانس کرنے کی آزادی ہے، جینر اور سلیو لیس شرٹس پہن کر گھومنے کی آزادی ہے، چیخ چیخ کر متنازع نعرے لگانے کی آزادی ہے، ڈیفینس، اسلام آباد، کلفٹن، لاہور کی سڑکوں پر گھومنے کی آزادی ہے اُنھیں مذید کس چیز کی آزادی چاہیے؟
جس آزادی کی بات عورت آزادی مارچ میں کی جاتی ہے ایسی آزادی مغربی معاشرے کی زینت ہے۔ اسلامی و پاکستانی معاشرہ بلکل الگ طرز پر قائم ہے یہاں عورت خود کو اپنے خاندان کی عزت سمجھتی ہے۔ باپ، بھائی، شوہر، بیٹے اُس کا فخر ہوتے ہیں۔ عام پاکستانی خواتین تو عورت مارچ میں پیش کردہ لبرل خیالات رکھتی بھی نہیں۔
اگر واقعی پاکستانی خواتین کی نمائندگی کرنی ہو تو اُن کے حقوق کی بات ہونی چاہیے، جن معاشی مسائل کا خواتین کو سامنا ہے اُن مسائل کی آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے، خواتین کو اُن کے حقوق کی اگاہی ملنی چاہیے، ڈومیسٹک وائلنس اور زیادتی کے خلاف مضبوط قوانین اور اُن کی بالادستی کا مطالبہ ہونا چاہیے، خواتین کے لیے تعلیمی اداروں کی تعمیر پر زور دیا جانا چاہیے، خواتین کے لیے فلاحی ادارے اور صحت کے مراکز بنانے چاہیے۔
یہاں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ معاشروں میں فرق ہوتا ہے۔ اسلامی یا پاکستانی معاشرے کے مسائل کا حل اسلامی حدود و دائرہ کار میں رہ کر ممکن ہے کیونکہ ایسے حل کو لوگ قبول اور سپورٹ بھی کرتے ہیں مگر اگر ایک مسلم معاشرے میں موجود مسائل کا حل مغربی معاشرے کے طرز پر نکالنے کی کوشش کی جائے تو حل تو دور کی بات ہے اُلٹا لوگ مخالفت کرتے ہیں اور یوں نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔

تحریر سیرت فاطمہ
@FatimaSPak

Comments are closed.