عورت اور ہمارا معاشرہ تحریر : امیرحمزہ کمبوہ

0
26

‏ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب بہو بیاہ کر گھر میں آتی ہے تو اس سے بیٹا پیدا ہونے کی امیدیں لگا لی جاتی ہیں ، اگر بیٹا پیدا نہ ہو اور بیٹی کے بعد پھر بیٹی پیدا ہو جائے تو جب تک بیٹا پیدا نہ ہو تب تک خاندان میں اضافہ جاری رکھنے کا سوچا جاتا ہے چاہے اس کوشش میں پہلے سے موجود بیٹیوں کی صحیح تربیت ، صحت اور خوراک کو نظر انداز ہی کیوں نہ کرنا پڑے

اور اس بات کا الزام بھی ہمیشہ عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے کہ تیسری بیٹی کے بعد چوتھی بیٹی پیدا کیوں ہوئی ہے ، لیکن شاید کبھی کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہو کے تیسرے بیٹے کے بعد چلو چوتھی بیٹی ہی پیدا ہو جاتی

ہمارے معاشرے میں آنے والے بچے کی جنس چاہے مرد ہو یا عورت لیکن اس عمل میں ہمیشہ عورت کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے جس عورت کے ہاں خدانخواستہ زیادہ بیٹیاں پیدا ہوجائیں تو اس کے سسرال والے بھی اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یہاں پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے اور یہ سب کرنے والی بھی ایک عورت یعنی کے اس کی ساس ہی ہوتی ہے

لیکن اگر عورت کے بھائی اور ماں باپ کا سایہ سر پر ہوگا اور وہ خیال کرنے والے ہوئے تو عورت کا قادر سسرال میں قدرے مضبوط ہوگا ، لیکن اگر اسی عورت کے ہاں بیٹے پیدا ہوجائیں تو اس کی بطور بیوی اور بہو کی حثیت مضبوط ہوگی اور اس سے گھر میں بطور خوشیاں لانے والی عورت کا تصور کیا جائے گا

اللہ پاک سورہ شوری میں ارشاد فرماتے ہیں
ترجمہ: اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔اور جس کو چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیتا ہے۔

اگر اس ارشاد باری کو مدنظر رکھا جائے تو آج کی عورت سمجھنے سے قاصر ہے کہ اولاد کی جنس کا ذمہ دار ہمیشہ عورت کو ہی کیوں ٹھہرایا جاتا ہے !

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد باری کا مفہوم ہے کہ
جس نے اپنی دو بیٹیوں کو پالا پرورش کی اور ان کا نکاح کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں آپس میں جڑی ہوئی ہیں

اس لیے ہمیشہ بیٹی کی پیدائش پر مجرم عورت کو ٹھہرانا بالکل بھی درست نہیں ہے

Twitter handle @AHK_313

Leave a reply