اوسٹیو جنیسز امپر فیکٹا (برٹل بون) Osteogenesis Imperfecta (OI) — خطیب احمد

0
37

زینب بیٹی جسکی دو ہفتے قبل میں نے وڈیو بھی لگائی تھی۔ اپنے علم کے مطابق جینو ویلگم Genu Valgum اور سکالئیوسز Scoliosis ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ جب سے اسے ملا میں اس بچی سے رابطے میں تھا مسلسل ریسرچ کر رہا تھا۔ مرہم ایپ کے ذریعے کئی آرتھوپیڈک و نیوروسرجنز سے مشورہ کر رہا تھا۔

آج زینب کی اپائنٹمنٹ لاہور سے آئے ہوئے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر ذکا اللہ ملک سے لی ہوئی تھی۔ زینب اپنے ماموں ذاد بھائی کے ساتھ صبح ہمارے گھر آئی۔ میری اہلیہ سے کافی دیر گپ شپ کرتی رہی۔ پھر ہم لوگ حافظ آباد زم زم ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر ذکا اللہ ملک کے ساتھ ڈاکٹر خضر عباس سندھو بھی ڈائگنوسز میں شامل تھے۔ دونوں ڈاکٹرز کے پیلوک، پوری سپائن، دونوں ٹانگوں، دونوں بازوؤں، کندھوں کے ڈیجیٹل ایکسرے کیے۔ مکمل ہسٹری لی کچھ بلڈ ٹیسٹ کیے۔ اور ابتدائی طور پر اس نتیجے پر پہنچے کہ بیٹی کو جینو ویلگم، سکالئیوسز کے ساتھ اوسٹیو جنیسز امپر فیکٹا بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے امپرفیکٹ بون فارمیشن۔ یعنی ہڈیوں کا ٹھیک سے نہ بننا۔ اس بیماری میں ہڈیاں بڑی کمزور ہوتی ہیں اور آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ یہ ایک پیدائشی جینیاتی بیماری ہے۔

اسے پروفیشنلز او آئی (OI) کہتے ہیں۔ اس کے تین اور نام بھی ہیں۔ جو کہ یہ ہیں
Fragilitas ossium
Brittle bone disease
Vrolik disease

میں نے اس کی اب تک 19 اقسام پڑھی ہوئی ہیں جنہیں ٹائپ 1 سے ٹائپ 19 کے نام سے ہی عموماً جانا جاتا ہے۔ ابتدائی تشخیص میں زینب کو ٹائپ 1 جسے
classic non-deforming osteogenesis imperfecta with blue sclerae
کہتے ہیں۔ ڈائگنوز ہوئی ہے۔ مگر ابھی یہ کنفرم نہیں۔ ٹائپ 1 کے بچوں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے۔ کہ انکی انکھ کا سفید حصہ مائنر سا نیلا ہوتا ہے۔ یہ ٹائپ 1 ویسے اس بیماری کی سب سے کم درجے پر ہڈیوں کا نقصان کرنے والی قسم ہے۔ تمام او آئی بچوں میں 50 فیصد کو یہی ہوتی ہے۔

او آئی 1 بچوں کی اکثریت میں ریڑھ کی ہڈی ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔ جوڑ بڑے کمزور ہوتے ہیں۔ پسلیاں بھی بیرل شیپ میں ہوتی ہیں۔ جوڑ ٹھیک سے نہیں بنے ہوتے۔ یہ سب کچھ زینب کے ساتھ بچپن سے ہے۔

اوسٹیو جنیسز امپر فیکٹا کی بیماری عام طور پر دنیا بھر میں 15 ہزار بچوں میں سے 1 کو ہوتی ہے۔

اسکی وجوہات جنیٹک میوٹیشن ہی ہمیشہ ہوتی ہیں۔ جب ہم جینیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مختلف جینز مختلف پروٹینز بنانے کا سافٹ ویئر اپنے اندر بلٹ ان رکھتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی جین میں کوئی گڑ بڑ ہوجائے تو جس چیز کو بنانے کے وہ ذمہ دار ہوتے اس میں خرابی یا بگاڑ آجاتا ہے۔ سائنس کے اساتذہ یا سٹوڈنٹس جانتے ہیں کہ کولاجن نامی پروٹین ہمارے جسم میں ہڈیاں بنانے اور ان کی گروتھ کی ذمہ دار ہے۔

اور کولاجن کتنی بنانی ہے کب بنانی ہے اسے کنٹرول کرنے کی ذمہ داری میرے مالک نے ایک خاص ننھی منھی سے شے جسے ہم COL1A1 جین کہتے کے ذمے لگا رکھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسکا دوسرا جین بھائی COL1A2 ہے جو یہی کام کرتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی بھی گڑ بڑ ہمارے پورے ہڈیوں کے ڈھانچے کو کسی بھی طرح خراب کر دیتی ہے۔ یہ دونوں ہی 90 فیصد ہڈیوں کی فارمیشن کے ذمہ دار ہیں گو کچھ اور جینز جیسے FKBP10 بھی ان کا ساتھ دیتا ہے۔

اس مرض سے متاثرہ لوگوں کا قد نہیں بڑھتا۔ زیادہ سے زیادہ تین فٹ تک یہ جا پاتے ہیں۔ اور سپائن تقریباً سب کی ٹیڑھی ہو جاتی۔

اوسٹیو جنیسز امپر فیکٹا
autosomal dominant pattern of inheritance
پر کام کرتا ہے۔ یعنی ہر سیل کی ایک کاپی ہی ہمارے جینز میں سوئی ہوئی اس بیماری کو جگانے کے لیے کافی ہے۔ ٹائپ 1 سے 4 تک کے والدین میں سے کوئی ایک عموما اس کا کیرئیر ہوتا ہے۔ یعنی اس کے جینز میں یہ بیماری ہوتی ہے۔ جو جنیٹک ٹیسٹنگ سے معلوم کی جاسکتی ہے۔ جنیٹک ٹیسٹنگ پر میں تفصیلی دو مضمون لکھ چکا ہوں انہیں آپ میری وال پر پن گئی پوسٹ میں دیے گئے لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔

علاج کیا ہے؟

بچے کی عمر سب سے پہلے دیکھی جاتی۔ مجموعی صحت کا اندازہ لگایا جاتا۔ او آئ کے ساتھ جڑی ہوئی دیگر میڈیکل کنڈیشنز کو دیکھا جاتا ہے۔ کہ سرجری سے کوئی اور نقصان تو نہیں ہوگا۔

ایسی دوائیاں مسلسل دی جاتی ہیں جو ہڈیوں کو مضبوط کریں۔

بچے کا روز مرہ لائف میں گرنے چھلانگ لگانے وغیرہ کا رسک کم سے کم کیا جاتا۔

کوئی لائٹ ویٹ بریس لگا دی جاتی۔

سرجری بھی کچھ کیسز میں ہوتی ہیں۔

کچھ بڑی ہڈیوں جیسے ران، پنڈلی، سپائن میں سٹیل کے راڈ بھی ڈالے جاتے ہیں۔

بہت سے بچوں کے دانت بہت ٹیڑھے ہوتے ان کو کیپنگ بریسنگ کے ذریعے ٹھیک کیا جاتا۔

فزیوتھراپی اور آکو پیشنل تھراپی ماہرین سے بہت ضروری ہے۔

ٹیکنالوجیکل سپورٹ جیسے پاور ہائیڈرالک سسٹم والی وہیل چیئرز، سپیشلائزڈ کمپیوٹرز، کھانا کھانے کے چمچ گلاس وغیرہ ان کے لائف سٹائل میں ایڈ کئے جاتے۔

دھکا لگا کر چلنے والی عام وہیل چیئر ان بچوں کے لیے سب سے خطرناک چیز ہے۔ اس میں ایک تو ان کی سپائن اور ڈیمج ہوتی۔ دوسرا ٹھوکر لگنے سے اکثر بچے اس کرسی سے نیچے گر کر ہڈیاں تڑوا لیتے اور فوت ہو جاتے۔

ان کے لیے وہ وہیل چیئرز ہوتی ہیں جن پر بہت سے بیلٹ لگے ہوتے ہیں۔ بجلی سے چلتی ہیں۔ فلی آٹو میٹک ہوتی ہیں۔ کسی بھی طرح کی کھائی یا جمپ سے گزرنے پر الٹتی نہیں ہیں۔

ہر کیس کو دیکھ کر اس کے لائف سٹائل اور علاج ک فیصلہ کیا جاتا ہے۔

زینب بیٹی کے لیے دعاؤں کی درخواست ہے۔ اب ان دونوں ڈاکٹرز نے ہمیں لاہور ڈاکٹر سلطان کے پاس ریفر کیا ہے۔ ان شاءاللہ چند دن میں ہی لاہور کا وزٹ ہوگا۔

سرجری تو مشکل ہے زینب کی ہو۔ سپائنل کارڈ بہت خراب ہو چکی ہے۔ سٹیل راڈ ڈل گیا تو قد بڑھنا رک جائے گا۔ گھٹنے کی ہڈیوں میں سے بھی ایک ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے۔ گھٹنے میں الگ پڑی ہوئی۔ گھٹنے کی سرجری بھی کسی خطرے سے خالی نہیں۔ میری سمجھ کے مطابق بچی کو ٹانگ اور سپائن کو سپورٹ دینے والے بریس لگانے کا ہم فیصلہ کریں گے۔ وہیل چیئر پر ابھی نہیں بٹھائیں گے۔ ورنہ جو تھوڑا بہت چل لیتی وہ بھی ختم ہوجانا ہے۔

خیر ابھی کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کئی اور طبی ماہرین کے وزٹ و میڈیکل پراسس ہونا باقی ہیں۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔ اللہ تعالیٰ زینب بیٹی اور اس طرح کے دیگر بچوں کو اپنی پناہ میں رکھے۔ اور ہمیں ان کا ہاتھ تھامنے کی توفیق عطا فرمائے۔

میں اور ڈاکٹر ذکا اللہ ظہر کی اذان ہوجانے پر نماز پڑھنے مسجد جانے لگے تو زینب نے کہا انکل مجھے بھی لے جائیں۔ تو ہم اسے بھی ہسپتال کے اندر ہی واقع مسجد میں ساتھ لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب بھی بہت جذباتی ہو گئے اتنی پیاری بچی کو دیکھ کر اور آئندہ بھی پورے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ کوئی ڈاکٹر اتنا وقت نہیں دیتا جتنا آج کوالٹی ٹائم زینب کو ملا۔

ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے۔ کہ آپ جیسے سمجھ رکھنے والے لوگ والنٹیئرلی ایسے بچوں کے ساتھ آئیں تو ہمیں بڑی آسانی ہو۔ آپکو تو کچھ بتانا ہی نہیں پڑ رہا ہم کسی بھی ٹرم کا نام لیتے ہیں آپ تفصیل خود بتا رہے ہیں۔ والدین جو اکثر پڑھے لکھے نہیں ہوتے کو بات سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ وہ بیماری کا سن کر کمرے میں مریض کے سامنے ہی رونے پیٹنے لگ جاتے۔ ہم پھر تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ چپ کرکے اپنا علاج کرتے رہتے۔ اور وہ کہتے ڈاکٹر کو تو کچھ پتا ہی نہیں اس نے ہمیں کچھ بتایا ہی نہیں۔ اور آئے روز سادہ لوح لوگ کوئی کسے نئے ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے۔ اب لوگ بھی بیچارے کیا کریں۔ کس کو ساتھ لے کر جائیں۔ آج کے دور میں کون کسی کے لیے وقت نکالتا۔ ہر بندہ ہی اپنی لائف میں ایسا مصروف کہ اسکی ذات کے لیے بھی اس کے پاس وقت نہیں۔

میں حیران ہوں۔ میرے مالک نے میرے وقت میں اتنی برکت کیسے ڈال دی ہے۔ چوبیس گھنٹے مجھے ایک ہفتے کی مانند لگتے ہیں۔

دیکھیں کتنی ہیاری لگ رہی یہ بچی میری انگلی پکڑے ہوئے۔ میری زندگی کی یہ سب سے خوبصورت تصویر ہے۔ جس میں زینب نے میری انگلی پکڑی ہوئی۔

Leave a reply