پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بڑے فیصلے

اسلام آباد۔ (اے پی پی) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے تیل اور گیس کے شعبہ میں کام کرنے والی تمام کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو افسران اور بورڈز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ان تمام کمپنیوں میں کارپوریٹ گورنس کو بہتر کرنے کے لئے موثر اور مربوط پالیسی کے ساتھ ساتھ ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے بے قاعدگیوں میں ملوث عملے کا ادارہ جاتی سطح پر ہی محاسبہ ہو سکے۔ اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کے کنوینر سینیٹر شبلی فراز کی زیر صدارت ہوا جس میں کمپنی کے ارکان سید نوید قمر اور منزہ حسن کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن کے 2010-11ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران بتایا گیا کہ 2002ء میں ایل پی جی پلانٹ کا ٹھیکہ خلاف قواعد دیا گیا۔ ایم ڈی سوئی سدرن نے پی اے سی کو بتایا کہ اس وقت ملک میں گیس کی کمی تھی جس کی وجہ سے یہ اقدام لینا پڑا۔ پی اے سی نے وزارت پٹرولیم نے اس وقت کے ایم ڈی اور بورڈ کے ممبران کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ غریب عوام کا پیسہ ہے اس کے ساتھ ایسا کھلواڑ نہیں ہونا چاہئے۔ پی اے سی کے استفسار پر سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ ملک میں گیس کی کمی ہے تاہم کتنی کمی ہے فی الوقت نہیں بتایا جاسکتا۔ پی اے سی نے کہا کہ پٹرولیم ڈویژن کی طرف سے پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اگر وزارتوں کی ہی روش رہی تو آئندہ سخت اقدامات کا حکم دیا جائے گا۔ منزہ حسن نے ایف آئی اے حکام کو بھی ہدایت کی کہ اس طرح کی قواعد کی خلاف ورزیوں کا انہیں نوٹس لینا چاہئے۔ اس طرح کے تمام اقدامات کی مکمل سکروٹنی ہونی چاہئے جو بھی اس طرح کی بے قاعدگیوں میں ملوث ہوں تمام ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے۔ پی اے سی نے نیب کے پاس پی اے سی کی طرف سے بھجوائے گئے تمام مقدمات پر تحقیقات کی تفصیلات طلب کرلیں۔ پی اے سی سیکرٹریٹ اور آڈٹ حکام کو بھی ہدایت کی گئی کہ جن جن اداروں کو پی اے سی میں طلب کیا جاتا ہے انہیں مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کی جائے۔ کمیٹی کے کنوینر نے آڈٹ حکام کی نشاندہی پر کہا کہ واقعی ایک دن میں پی اے سی کے دو دو تین تین اجلاس ہوتے ہیں‘ اس صورتحال میں آڈٹ کو اپنے دفاتر میں کام کرنے کا موقع کم ملتا ہے۔ ہمیں آپس میں بیٹھ کر اس کا حل نکالنا پڑے گا۔ انہوں نے وزارت پٹرولیم کو ہدایت کی کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کو لائسنسز کے اجراء اور دیگر کمپنیوں کو آپریشن میں شامل کرنے کے حوالے سے موثر پالیسی اور مربوط نظام ہونا چاہئے۔ مربوط پالیسی کے بغیر اس طرح کی باقاعدگیاں سامنے آتی رہیں گی۔ سیکرٹری پٹرولیم میاں اسد حیاء الدین نے کہا کہ ہمیں بہت سے معاملات میں عدالتی چارہ جوئی کا سامنا ہے، ہمیں کارپوریٹ گورنس میں کمزوریوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماڑی گیس پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل مقامی کمپنیاں ہیں ان اداروں میں ہمیں کسی قسم کی شکایات کا سامنا نہیں ہے۔

Comments are closed.