پیغام حسینیت اور ہمارا اتباع تحریر:محمد طیب ریاض۔

0
41

"اسلام زندہ ہوتا ہے، ہر کربلا کے بعد”۔ یہ فقرہ ہم بچپن سے سنتے آئے اور انشاءاللہ ہمیشہ سنتے رہیں گے، یعنی اگر حسین رضی اللہ عنہ تب قربانی دیکر اسلام کو نہ بچاتے تو آج اسلام زندہ نہ ہوتا۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اسکا مفہوم اسکا مطلب سمجھنے کی کوشش کی کہ "کیسے”؟

ہم سب آج تک سنتے آئے کہ حضرت نوح علیہ السلام آدم ثانی ہیں اور انسانوں کو نشاط ثانی ملی۔ مگر یہ ہوا کیسے تھا، کیوں ایسا کہا جاتا؟

وہ اس لئے کہ جب طوفان نوح آیا تو ساری زمین اوپر نیچے سے پانی برسنے اور ابلنے کی وجہ سے زیر آب آگئی اور جتنی بنی نوع اس دنیا پر موجود تھی سب غرق ہوگئی ماسوائے ان مخصوص جنس کے جوڑوں کے جو نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار ہوکر بچ رہے پھر انہی سے آگے دوبارہ زندگی کا ارتقاء ہوا اور نسل انسانی کی نشاط ثانیہ ہوئی۔

اسی طرح کربلا میں اسلام کی نشاط ثانیہ ہوئی۔ یعنی نعوزبااللہ اسلام کربلا سے پہلے مردہ نہیں تھا مگر دوبارہ زندہ اسطرح ہوا کہ اگر حسین ابن علی رضی اللہ عنہ یزید کے جبر اور ہوس اقتدار کے آگے سر جھکا دیتے، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ہوئے اس بدبخت کی سب خلاف اسلام عادات و حرکات پر چشم پوشی فرمالیتے تو کون رہتا اٹھنے والا۔ چونکہ تب سب سے قابل احترام و باعث تقلید شخصیت آپ تھے تو ہرکوئی جواز بناتا کہ جب نواسہ رسول کو اعتراض نہیں تو تم میں کون ہوتے یزید کی بیعت سے انکاری ہونیوالے۔

جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت فرمائی کہ اے فاطمہ یہ نہ سمجھنے کہ اس نسبت سے آخرت میں فلاح پاجاؤ گی کہ نبی کی بیٹی مگر اپنے اعمال کے بل بوتے نجات ملیگی۔ اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بلند مرتبہ کے پیچھے وجہ نواسہ رسول کی نسبت ہی نہیں بلکہ انکی قربانی بھی اس درجہ بلند پایا تھی۔

انکو پتہ تھا کہ اب اسلام کی بقاء کا دارومدار میرے فیصلہ پر ہے تو انہوں نے اسلام کی بقاء کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔

اگر یہ قربانی نہ ہوتی تو آج ظلم کیخلاف حق کیلئے کھڑے ہونیکا کا کوئی رواج نہ ہوتا۔ سب کہتے نواسہ رسول کمپرومائز کرسکتا نعوزبااللہ جو جنت کے سردار ہیں تو ہمیں کیا مسئلہ۔ یہ وہ ناقابل تردید حقیقت ہے جس پر اسلام کی حیات ثانیہ کی بنیاد ہے۔

اور یہی پیغام حسینیت ہے کہ سر کٹوانا آسان لگے، گھر لٹانا آسان لگے مگر باطل کے سامنے ہتھیار ڈالنا، سرنگوں ہونا یا مصلحت پسندی کا شکار ہونا ناممکن لگے۔ حق کیلئے باطل کے سامنے ڈٹ جانا، نماز نہ چھوڑنا چاہے سر تیغ دشمن کے نیچے ہو اور مصلح میدان جنگ ہی کیوں نہ ہو، سجدہ کرنا اس خدائے واحد کے سامنے، جھکنا تو اسی کے سامنے چاہے سر ہی کٹ رہا ہو، قرآن کو زبان سے الگ نہ کرنا چاہے سر نیزے پر ہی کیوں نہ ہو۔

تو کیا آج ہم پیغام حسینیت کی اتباع کررہے؟ انہوں نے بھوک پیاس سہی حق کیلئے مگر ہم ان دنوں میں دنیا کی ہر نعمت کا ذائقہ چکھتے، انہوں نے میدان جنگ میں نماز نہ چھوڑی اور ہم پھولوں کی سیج پر بھی نہیں پڑھتے۔ انہوں نے نیزے پر قرآن پڑھا ہم نے غلاف میں بند کردیا، انہوں نے صرف اللہ تبارک کے حضور سرنگوں ہوکر سجدہ کیا اور ہم کس کس در پر ماتھا ٹیکتے۔

کیا اسلام میں تشبیہات ممنوع نئیں یا وہ دی گئی قربانی اس مقصد کی حامل تھی؟ 

لہذا آئیے اصل پیغام حسینیت کی طرف چلیں۔ اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے صراط مستقیم کی۔ آمین

TwitterID: @tayyabriaz764 

Leave a reply