درد کشمیر اور ہمارا ضمیر ، تحریر مغیرہ حیدر

0
20

وادی کشمیر اور اس میں رہنے والے مظلوم کشمیری عوام جو گزشتہ پچاس دن سے بھارتی فوج کے ظلم و بربریت اور قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں، سکول و کالج، مارکیٹیں، دوکانیں، اخبارات، موبائل-فون، انٹرنیٹ، مساجد اور سبھی راستے بند کر دیئے گئے..!
کیا ہمارے دل میں احساس کی کوئی کرن باقی نہیں جو کشمیر کی آزادی کے لیے عملی طور پہ کوئی کردار ادا کر سکے، کیا ہم روزانہ اپنے گھربار اور معمولاتِ زندگی میں یونہی مشغول و مگن رہیں گے.؟ کیوں ان کشمیریوں کی محبت ہمارے دلوں کو نہیں گرماتی.؟ آخر ہم کیوں بےحسی کی چادر اوڑھے غفلت کی نیند سو رہے ہیں.؟ کیا ہماری صلاحیتیں کشمیر کے لیے کام نہیں آ سکتی.؟ ہم تہہِ دل سے کشمیریوں کے لیے دعا کیوں نہیں کرتے.؟ ہم ان کے درد کو اپنا درد سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں.؟

وہ کشمیری جو ہر قدم پہ پاکستان کے لیے اپنی جان ہتھیلی پہ لیے نکلتے ہیں، وہ کشمیری جو پاکستانیوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کیا ہم ان کی امیدوں پہ پورا اترنے کی کوشش کر رہے ہیں.؟ آپ خود سے سوال کیجیے اپنے گریبان میں جھانکیے کہ ہم نے کشمیری مظلوم مسلمانوں کے لیے کس حد تک کوشش کی، کیا ہمارے دل کو دنیا کا آسائش و آرام تو نہیں بھا گیا، جی ہاں! ہمیں امت مسلمہ اور اسلام سے محبت برائے نام ہے، ہم اس احساس سے محروم ہو چکے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہمارے اسلاف نے محسوس کیا، اگر آپ کشمیر کی حالتِ زار کو خود اپنی ذات پہ محسوس کریں تو شاید آپ کا ضمیر آپ کو جھنجوڑے اور چیخ کر کہے کہ اب بھی دعا ہی کرو گے.؟ کیا اپنے دفاع کے لیے اپنا ہاتھ، قدم، قلم، آواز، کیمرہ، ہنر، فن استعمال نہیں کرو گے.؟

ضرور استعمال کرو گے بلکہ آخری سانس تک جدوجہد اور لڑائی کرو گے، اپنی چادر اور چار دیواری کے تحفظ کے لیے ہر شے کو بروئے کار لاؤ گے،
لیکن کشمیر تو اپنا نہیں، ہے ناں.؟
خدا کے لیے اپنے آپ کو جگائیے، کشمیری اور کتنے جنازے اٹھتے دیکھیں گے، کتنے بچے یتیم ہوں گے، کب تک وہ مائیں بیٹوں کا سوگ مناتی رہیں گی.؟

اگر احساس ہو تو اٹھائیے کشمیر کے لیے اپنی آواز، قلم اور قدم تا کہ کل کشمیری اللہ کے دربار میں حاضر ہو کے تمہارا گریبان نہ پکڑ سکیں..!

Leave a reply