پاکستان کے مسائل تحریر-سید لعل حسین بُخاری

0
37

@lalbukhari

یوں تو جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے،ہر وقت کسی نہ کسی طرح کے مسائل سے دوچار رہا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد یہ مسائل کم تھے۔

مگر آہستہ آہستہ ان میں آنے والے کرپٹ حکمرانوں کی بدولت اضافہ ہوتا گیا۔

جو حکمران بھی آیا،

اُس نے لوٹ مار پر زیادہ فوکس کیا اور یہ مسائل انبار کی شکل اختیار کرتے گئے۔

کسی نے بھی ان مسائل پر توجہ نہیں دی۔

جو بھی آیا اُس نے اپنی تجوریاں تو خوب بھریں مگر ملکی خزانہ خالی ہوتا گیا۔

پی ٹی آئ کی موجودہ حکومت اسی وجہ سے گوناگوں مسائل کا شکار ہے کہ اسے ملنے والی حکومت ماضی کے حکمرانوں کی بد اعتدالیوں کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔حکومت ملتے ہی وزیر اعظم 

عمران خان کو قرضوں کی ادائیگی کی ایمرجنسی ضروریات پوری کرنے کے لئے دوست ممالک کے ہنگامی دورے کرنے پڑے۔

عمران خان کی تگ و دو سے ملک فوری طور پر دیوالیہ ہونے سے تو بچ گیا مگر ان مسائل سے نبٹنا اب بھی اس حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

موجودہ حکومت جن مسائل کا اس وقت سامنا کر رہی ہے،

اُن میں مہنگائ سرفہرست ہے

مہنگائ کی موجودہ ہوش رُبا لہر حکومت کے گلے پڑے ہوئ ہے۔

اس مہنگائ میں موجودہ حکومت کا کردار کتنا ہے؟

یہ غور طلب بات ہے

مہنگائ کے ضمن میں سب سے پہلی وجہ تو کرونا کے بعد پوری دنیا میں چیزوں کا مہنگا ہو جانا شامل ہے۔

برطانیہ،کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے آپ کو اس صورتحال سے محفوظ نہیں رکھ سکے۔

تیل کی بڑھتی قیمتوں نے خاص طور پر دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔

تیل کی قیمت بڑھنے سے ہرچیز پر اثر پڑتا ہے۔برطانیہ جیسے ملک میں اس بحران کی وجہ سے انہیں فوج طلب کرنا پڑی تاکہ پٹرول پمپس پر تیل کے حصول میں لگی لمبی لائنوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔

اس وقت کئی یورپی ممالک میں مہنگائ اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

اگر ترقی یافتہ ممالک کا یہ حال ہے تو بھلا پاکستان اس سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟

جہاں لوٹ مار سے خزانہ پہلے ہی خالی ہے اوپر سے ماضی کے حکمرانوں کی طرف سے لئے گئے قرضوں کی واپسی کے لئے مزید قرضوں کا حصول 

یک نہ شُد،دو شُد والی بات ہے۔

مہنگائ کی بین الاقوامی وجوہات اپنی جگہ،

ماضی کے حکمرانوں کی عیاشیوں کی بدولت ملکی معیشت کی تباہ حالی اپنی جگہ

مگر موجودہ حکومت نے مہنگائ کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنی طرف سے بھی کچھ خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاۓ۔

اکثر وزرا مُشرا رام لیلی کی کہانی ٹیلی وژن پر آکر سناتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سرخرو ہو گئے۔

ایسا قطعا” نہیں،

عوام کو مطمئن کرنے کے لئے کم ازکم مصنوعی مہنگائ کا توڑ تو کیا جاۓ؟

کم ازکم اُن مافیاز کو تولگام ڈالی جاۓ،

جو جان بوجھ کر چیزوں کی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ اس خود ساختہ مہنگائ سے موجودہ حکومت کی ساکھ خراب ہو اور ماضی کے چوروں کو ایکبار پھر واپسی کا موقع مل سکے۔

یہ مافیاز درپردہ انہیں سابق حکمرانوں کے اشارے پر چلتے ہیں،

انکی ڈوریاں وہیں سے ہلائ جاتی ہیں۔

یہ سب لوگ اسی نیٹ ورک کا حصہ ہیں،

جو مل کے لوٹ مار کرتا تھا ،

مل کے بندر بانٹ کرتا تھا اور پھر اقرار بھی کرتا تھا کہ کھاتا ہے تو کھلاتا بھی ہے۔

حکومت ان سب باتوں کے باوجود اپنے آپ کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔

زخیرہ اندوزوں اور چوربازاری کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا بہت زیادہ ضروری ہو چکا ہے۔

موجودہ حکومت کی کوششوں سے ملکی معیشت کے مثبت اعشاریے مہنگائ کی اس لہرکی وجہ سے ماند نظر آتے ہیں۔

اس مہنگائ کو کم کرنے کے لئے حکومت کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔

کسی غیبی امداد کا منتظر رہنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا۔

کالم لکھنے کے دوران ہی پتہ چلا ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں ایکبار پھر اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ اضافہ بے شک تیل کی قیمت میں بین الاقوامی طور پر ہونے والے اضافے ہی کا شاخسانہ ہے۔

مگر یہ اضافہ عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثرکر رہا ہے،

حکومت کو پٹرولیم مصنوعات میں مزیدسبسڈی دینے کے لئے کوئ منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

اگرچہ ایک مقروض ملک کے لئے یہ آسان ہرگز نہیں مگر کبھی کبھار عوام کی خاطر کچھ کڑوے گھونٹ پی لینے میں کوئ مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔

خطے میں اب بھی پاکستان میں تیل کی قیمتیں دوسرے ممالک کی نسبت کم ہیں۔

مگر یہ مفروضہ عوام کے دُکھوں کا مداوا ہر گز نہیں۔

ان مشکل حالات میں عوام کو بھی حکومت کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوۓ چھوٹی چھوٹی بچتوں پر کام کرنا ہوگا۔

اس سے نہ صرف ان کا فائدہ ہوگا بلکہ ملک کے لئے بھی آسانیاں پیدا ہوں گی۔

قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔

ہم اس ملک کا نہیں سوچیں گے تو دوسراکون سوچے گا؟

ہم سب کو مل کے ان مشکلات کا مقابلہ کرنا ہو گا۔

سب کچھ کرنا اکیلے حکومت کے بس کی بات نہیں۔

ہم سب کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

ہمیں اس بے بنیاد پروپیگنڈے سے بچنا ہو گا،

جو اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کیا جا رہا۔

ہمیں اس ففتھ جنریشن وار میں ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنا ہونگے۔

یہ یاد رکھیں کہ یہ ملک ہے تو ہم سب بھی ہیں۔

ہمیں سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

بدقسمتی یہ ہے کہ کسی بچت یا ملکی مفاد میں جب بھی کوئ  مشورہ   دیا جاتا ہے لوگ حکومت کا مذاق اڑانا شروع کر دیتےہیں۔

لوگ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کو 70سال لگاتار برباد کیا گیا،

اسے درست کرنے کے لئے کچھ وقت تو لگے گا،

موجودہ حکومت کو ابھی 3سال ہوے ہیں آۓ ہوۓ۔

ابھی سے کچھ گماشتے یہ کہنا شروع ہو گئے ہیں کہ جنہوں نے دہائیوں اس ملک کو لُوٹا،

جو اس ملک کی بربادی کے زمہ دار ہیں،

انہیں کو واپس لے آئیں۔

واہ کیا منطق ہے،گویا

میر کیا سادےہیں،بیمار ہوۓ جس کے سبب

اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

تحریر-سید لعل حسین بُخاری

@lalbukhari

Leave a reply