طیب اردگان کی منافقت یا قومی مفاد ،پاکستان کا وہ بلاک جو بننے سے پہلے ٹوٹ گیا، تہلکہ خیز انکشافات،مبشر لقمان کی زبانی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد عرب ممالک پر فلیسطین سے غداری اور ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے الزامات لگانے والے طیب رجب اردگان نے امریکی پابندیاں لگنے کے اگلے دن اسرائیل سے دو سال سے منقطع تعلقات اچانک بحال کر کے پاکستان سمیت دنیا بھر کو حیران کر دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے۔؟
ایسا کرنے سےمشرق وسطیٰ کی انتہائی پیچیدہ سیاست مزید پچیدہ ہو جائے گئی۔
مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ کیا طیب اردگان کو اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ تناو کی پالیسی سے انہوں نے ترکی کو دنیا میں تنہا کر دیا تھا۔ سعودی عرب سے ترکی کی لڑائی، آرمینیا سے ان کی لڑائی، فرانس سے ان کا پھڈا، یونان اور قبرس سے ان کی لڑائی، مصر ، شام، لیبیا سمیت دنیا بھر میں تنازعات کے اندر ترکی کا کردار اور اب امریکہ کی طرف سے پابندیاں۔ان تمام لڑائیوں کا مقصد اسلامی دنیا کو گمراہ کرنا تھا ، اپنے ملک میں مذہبی سپورٹ کو اپنے ساتھ کرنا تھایا واقعی ترکی اسلامک بلاک کی جگہ لے کر دنیا بھر میں کمزور مسلمان ممالک کی آواز بننا چاہتا تھا۔آج کی اس ویڈیو میں ہم کوشش کریں گے۔کہ اس مسئلہ سے متعلق اٹھنے والے سوالوں کے جواب آپ کو دیں اور حقائق آپ کے سامنے رکھیں۔جب میں نے اس بات سے پردہ اٹھایا تھا کہ ترکی مسلمان ممالک میں پہلا ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو بڑے نام نہاد سیاسی مفکر ترکی کے دفاع میں نکل آئے تھے۔کیوں ۔۔۔ کیونکہ انہیں حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں انہوں نے وہ بات کرنی ہے جو لوگ سننا چاہتے ہیں اور جو سننے کو ان کا دل کرتا ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اب ترکی نے بغیر کسی شرط کے، بغیر فلسطینیوں کو حقوق دلوائے یک طرفہ اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیئے ہیں تو اس بارے میں ان نام نہاد سیاسی مفکرین کا کیا کہنا ہے۔پاکستان کا وہ بلاک جو بننے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا، اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ترکی، ایران، چین اور پاکستان کے بلاک کی بڑھکیں مار کر سعودی عرب کو ناراض کرنے کا پاکستان کو کیا فائدہ ملا۔۔؟ کبھی ہم کہتے ہیں کہ عرب امارات سے پاکستان کے معاملات بلکل ٹھیک ہیں لیکن پھر ہمارے وزیر خارجہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ جب مسئلہ ہے ہی نہیں تو حل کیوں کر رہے ہو بھائی۔کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہطیب اردگان کی پہلی ذمہ داری ترکی کے مفاد کو دیکھنا ہے جبکہ پاکستان کی پہلی ترجیح پاکستان کے مفادات کا تحفظ ہے۔کوئی بھی قوم اپنے مفادات کا تحفظ اس وقت کر سکتی ہے جب وہ حقائق سے آگاہ ہو اور وہ صحیح حقائق ہی ہیں جن سے صحیح فیصلہ کرنے میں رہنمائی لی جاتی ہے۔جھوٹ پر مبنی حقائق سے لیا فیصلہ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔پاکستان وہ ملک ہے جس نے انیس سو اڑتالیس سے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔مصر نے انیس سو اٹہتر میں معاہدہ کیا۔Palestine Liberation Organization (PLO)نے انیس سو ترانوے میں معاہدہ کیا۔اردن نے انیس سو چورانوے میں معاہدہ کیا گلف ممالک جو پہلے پاکستان کے ساتھ کھڑے تھے یا پاکستان ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ عرب امارات نے دوہزار بیس میں معاہدہ کیا
، سوڈان، بحریں مراکو نے تعلقات بحال کر لیئے ہیں لیکن پاکستان نے اپنی فارن پالیسی تبدیل نہیں کی۔۔کیوں۔۔؟
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ پاکستان کی ریاست جس نے یہ فیصلہ کرنا ہے اس نے جب بھی کرنا ہے پاکستان کے بہترین مفاد اور اپنی پالیسی کی روشنی میں کرنا ہے اور اب کہا یہ جا رہا ہے کہ بظاہر سعودی عرب کا بھی وہی موقف ہے جو پاکستان کا Stance ہے کہ فلسطین کو آزاد ریاست کا Status دو تو بات آگے چلے گی اور سعودی عرب اور پاکستان اس معاملے پر ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ لیکن ہم نے کبھی کسی دوست ملک کو اس حوالے سے گمراہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل نے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو نکال کر اپنی ریاست کا اعلان کیا۔ 1960 کی دہائی میں PLO بنی۔ پہلے اس کا مطالبہ تھا کہ ہمیں وہ فلسطین چاہیے جو برطانیہ کے قبضہ میں تھا یعنی اسرائیل کا سرے سے خاتمہ۔ لیکن پھرPLO زمین تقسیم کرنے پر رضا مند ہو گئی۔ لیکن پھر بھی یہ مسلئہ حل نہیں ہو سکا۔ جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جب عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو ترکی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ تاریخ اور خطے کے عوام کا ضمیر ، متحدہ عرب امارات کے اس منافقانہ طرز عمل کو فراموش نہیں کرے گا اور اسے کبھی معاف نہیں کرے گا ، جو اس نے اپنے Narrow interest کے لیئے
فلسطینی مقاصد کے ساتھ غداری کی ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ طیب اردگان نے عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلقات معطل کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی۔ ایسا انہوں نے کیوں کیا۔ وہ کون سے مقاصد ہیں جو طیب اردگان نے حاصل کر لیئے اور اپنا سفیر Tel aviv
بھیج دیا ہے۔ کہا ہے وہ فلسطین Cause کہاں ہے خطے کے لوگوں کا ضمیر۔ کوئی اور کرے تو ۔۔ امت کا غدار اور۔۔ میں کروں تو امت کا لیڈر۔۔یہ کیا مذاق ہے بھائی۔ کس کو پاگل بنا رہے ہو۔۔؟اگر عرب امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر منافق تھا تو طیب اردگان منافق نہیں۔۔؟کیا آپ کو پتا ہے کہ2005میں جنرل مشرف کے دور میں جب اسرائیل سے تعلقات کی بات چلی تھی اور خورشید قصوری اور اسرائیلی وزیر خارجہ نے تاریخ میں پہلی دفعہ ہاتھ ملائے تھے ان کوششوں کے پیچھے بھی ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان تھے۔ جس کا اقرار خود اسرائیلی وزیر خارجہ نے کیا۔اس وقت اسرائیل نے طیب اردگان کو پاکستان سے تعلقات وابسطہ کروانے پر کیا لولی پاپ دیا تھا۔۔؟
انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ کیا وہ پاکستان کی محبت تھی۔ کیا وہ ترکی کا مفاد تھا یا اسرائیل کا مطالبہ۔ کوئی ہے جو اس حقیقت سے پردہ اٹھائے گا۔؟ترکی اور اسرائیل کے درمیان Free trade agreement موجود ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی اسرائیل کا major trading partner ہے۔ ترکی اسرائیل کو ٹیکسٹائل،iron, chemicals and oil distillates, steel, land, sea and air vehicles, ceramic اور glass products فرائم کرتا ہے۔
ترکی اسرائیل سے High tech equipment خریدتا ہے جبکہ اسرائیلی ملٹری کو یونیفورم اور بوٹ فراہم کرتا ہے۔ترکی کی ائیر لائن سب سے زیادہ اور reguler دورے اسرائیل کے کرتی ہے۔سیاحت انتہائی کم ہونے کے باوجود سالانہ ایک لکھ یہودی ترکی کا دورہ کرتے ہیں۔منسٹری آف کامرس کے ڈیٹا کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے درمیاں تجارت کا حجم یہ ہے۔ 2018 .. 6.2 billion doller جو 2019-20میں 5.5 billion doller ہو گئی۔ اور سب سے زیادہ اکتوبر دو ہزار بیس میں رہی جبکہ ترکی کی ایکسپورٹ جو اسرائیل کی گئی اس میں بھی سولہ فیصد اضافہ ہوا۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ دو ماہ پہلے اسرائیل اور ترکی۔۔ آزرنائیجان اور آرمینیا کے معاملے پر بھی ایک ساتھ کھڑے تھے۔اب مسئلہ یہ ہے جو خطرات پاکستان کو لاحق ہیں وہ دنیا کے ہر اہم ملک کو در پیش ہیں۔پوری دنیا سمیت
مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندیاں اور Geo streategic تبدیلیاں ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہیں جب دنیا وبا کی وجہ سے انسانی تاریخ کے ایک مشکل دورسے گزر رہی ہے۔دنیا بھر کے ملکوں کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور عرب ممالک کے لیے ،تیل کی ڈیمانڈ کم ہونے کی وجہ سے، اس کے کمائی پر انحصار کم ہو رہا ہے۔بدقسمتی سے مغرب اس وقت دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی سمیت دیگر وسائل پر قابض ہے، اس وقت وہی ملک ترکی کر سکتا ہے جسے وہ ترقی کرنے کی اجازت دیں گے۔بظاہرعرب ممالک معاشی استحکام کی کوشش میں اپنی روایتی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے اور اپنے لیے نئے معاشی امکانات اور مواقع پیدا کرنے کی فکر میں مصروف نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔ ہر کوئی نئی امریکی انتظامیہ سے اپنے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ٹائمز آف اسرائیلاسے ترکی کی طرف سے آنے والے دنوں میں امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی کوشش قرار دیا ہے یروشلم پوسٹ نے 13 دسمبر کو ترکی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خبروں کے حوالے سے لکھا کہ ترکی اسرائیل سے تعلقات بحال کر کے نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنے آپ کو
گُڈ کاپ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کو اپنے نئے اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور یونان سے دور کرنا چاہتا ہے۔اس کے علاوہ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا بھی یہ خیال ہے کہ ترکی نے یہ فیصلہ نئی امریکہ انتظامیہ سے مذاکرات اور بات چیت کے لیے گنجائش پیدا کرنے اور ترکی پر چاروں طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نکلنے کے لیے کیا ہے۔ترکی میں الگ تھلگ رہ جانے کا احساس شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا۔
ترکی کو بحیرہ احمر میں تیل اور گیس کی تلاش کے معاملے پر قبرص اور یونان سے جھگڑے میں فرانس اور متحدہ عرب امارات کی مخالفت کا سامنا ہے۔
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ لیبیا اور شام کے معاملات میں ترکی کو مصر، سعودی عرب متحدہ عرب امارات، فرانس کے علاوہ روس سے بھی مخالفت کا سامناہے۔کس گلف ملک نے کیا کیا یہ الگ بحث ہے لیکن طیب اردگان جو اپنی تقریوں اور الفاظوں سے امت مسلمہ کا لیڈر اور سلطنت عثمانیہ کے وارث بننے کی کوشش کر رہے ہیں کیا ان کے الفاظ اور ان کے Actionمیں مطابقت نہیں ہونی چاہیے۔ کیا طیب اردگان کو نہیں چاہیے تھا کہ کسی بھی ملک کو
Diplomatic ties ختم کرنے کی دھمکی دینے سے پہلے صہیونی ریاست سے Trade or diplomacy ختم کر دیتے۔ تاکہ ان کی باتوں اور دھمکیوں سے زیادہ ان کے اقدامات کی گونج ہوتی۔لیکن یہاں گنگا الٹی ہی بہہ گئی۔