پاک افغان تعلقات، چند اعتراضات اور اُن کے جوابات تحریر: آمنہ امان

0
36

افغانستان پاکستان کا ہمسایہ مسلم ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کا 2600 کلومیٹر سے طویل مشترکہ بارڈر ہے۔ افغانستان غیور اور بہادر افغان قبائل کا ملک ہے جو صدیوں سے قبائلی لڑائیوں اور بیرونی حملہ آواروں سے نبرد آزما رہا ہے۔
قیام پاکستان کے وقت افغانستان پر بھارت نواز قبائل کی حکمرانی تھی چنانچہ ابتداء میں افغانستان کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا اور پاک بھارت جنگوں میں افغانستان بھی ایران کی مانند بھارت کا ہی ہمیشہ حمایتی رہا تاہم کچھ افغان قبائل ہمیشہ پاکستان کو اپنا اسلامی بھائی مانتے رہے اور پاکستان سے اچھے تعلقات کے خواہاں رہے۔
افغانستان قدرتی معدنیات سے مالا مال ملک ہے چنانچہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان کے دوست افغان قبائل نے اُنہیں کس طرح اور کن کی مدد سے دھول چٹاٸ یہ ایک کھلا راز ہے۔
مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھارت نواز قبائل حکومت قائم کرنے کے لیے اپنے دوست بھارت کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر پاک دوست قبائل کے خلاف صف آرإ ہوۓ اور یوں افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا اس دوران نائن الیون حادثے کو جواز بنا کر امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور خطے میں سہ رخی کولڈ وار کا آغاز ہوا۔
بھارت نواز قبائل امریکہ اور نیٹو فورسز کے ساتھ مل کر پاکستان اور اسلام پسندوں کا قتل عام کروانے لگے تاکہ ان کے بیرونی آقاخوش ہوکر انہیں حکومت سونپ دیں
چنانچہ پاکستان اور اس کے افغان حامیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے ان کی ہم نام جماعت (تحریکِ طالبان پاکستان ٹی ٹی پی) بنائی گئی اور اُس کے ذریعے
پاکستان میں شدید دہشت گردی کرواٸ گٸ تاکہ ان قبائل کو بدنام کیا جاسکے اور پاکستانی عوام کے دلوں میں ان کے خلاف نفرت بھری جاسکے۔ اور اس طرح اسلام کو بھی بدنام کیا جاسکے کہ اسلام پسند لوگ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ پاکستان فورسز کو اپنے دوست افغان قبائل کی مدد کرنے سے روکنا چاہتے تھے اور پاکستان میں ان کی مدد چند جرائم پیشہ پشتون لوگوں نے کی جن کا زریعہ آمدن پاک افغان بارڈر پر منشیات اور اسلحے کی ناجائز اسمگلنگ تھا۔ پاک فوج نے کئی جوانوں کی شہادت کے بعد پاک افغان بارڈر پر آہنی باڑنصب کی ہے تاکہ دہشت گردوں اور اسمگلرز کی آمدورفت روکی جاسکے جس کی اس ناجائز دھندے سے وابستہ لوگوں کو شدید تکلیف ہے اور انہوں نے (پی ٹی ایم )جیسی شر پسند جماعت بنا رکھی ہے تاکہ سرحدی علاقوں کی عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکا کر علاقے سے چیک پوسٹس اور بارڈر سے باڑ ختم کروا سکیں۔ مگر ان کے یہ گھناٶنے عزائم کبھی پورے نہیں ہوں گے ان شاء اللہ۔

یہاں پاکستان پر امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا اعتراض کیا جاتا ہے
تو جواب یہ ہے کہ ہم افغانستان کے ہمسایہ اور دوست ضرور ہیں مگر آزاد ملک ہیں پاکستان وہی فیصلہ کرے گا جس سے اس کی اپنی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔اگر پاکستان کا یہ اقدام غلط ہوتا تو تیس سال سے پاکستان میں قیام پذیر چالیس لاکھ افغان مہاجرین احتجاجاً واپس ناں چلے جاتے؟
اورکیا خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جس میں امریکی اڈے ہیں؟
کیا ہماراخزانہ اور دفاعی بجٹ اتنا زیادہ تھا کہ ہم عالمی پابندیوں اور امریکی حملے کا براہ راست سامنا کرسکتے وہ بھی افغانستان کی خاطر جو ہمیشہ بھارت کا حامی رہا؟
دوسرا اعتراض کہ پاکستان نے اپنے حمایتی اسلام پسند افغان قبائل کو دھوکا دیا اور انہیں گرفتار کرکے امریکہ کو دیا؟
تو جناب ان قبائل کے اپنے ترجمان موجود ہیں ۔نام ہیں سہیل شاہین اور ذبیح اللہ مجاھد اُنہیں اچھے سے علم ہے کس نے ان کا ساتھ دیا کس نے دھوکا۔ آپ ان کے ترجمان بننے کی کوشش ناں کریں جبکہ آپ کچھ جانتے ہیں ناں آپ ان کے ساتھی ہیں۔ اگر پاکستانی ہیں تو پاکستانی رہیں اور دوسروں کے ترجمان بننے سے گریز کریں۔
نیٹو فورسز افغانستان سے رخصت ہوئیں ۔پاکستان کے دوست قبائل حکمران بنے اور پاکستان سے اعلانیہ محبت اور بھاٸ چارے کا اعلان کرتے رہتے ہیں جس سے بھارت نواز لوگوں کو شدید تکلیف کاسامنا ہے کیونکہ ان کے آقاؤں کی بھاری سرمایہ کاری برباد ہوگئی ہے۔
۔ اِن شاء اللہ اب افغانستان میں پائیدار امن قائم ہوگا اور ہمارا یہ طویل بارڈر ہمیشہ محفوظ اور پُرامن رہے گا
@Amanharris

Leave a reply