پاکستان اور چین کا ماسٹر سٹروک، گھیرا تنگ، جال بچھ گیا، بھارت کی دوڑیں

0
21

پاکستان اور چین کا ماسٹر سٹروک، گھیرا تنگ، جال بچھ گیا، بھارت کی دوڑیں

باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ کیوں عمران خان کا دورہ سری لنکا کے موقع پر پارلیمنٹ سے خطاب کینسل کر دی گیا ہے، خان کے دورہ سری لنکا سے بھارت میں خطرے کی گھنٹیاں کیوں بج رہی ہیں، کیا خان صرف سر ی لنکا کے مسلمانوں کا مسلئہ حل کرنے گئے ہیں یا کہانی کچھ اور ہے۔ چین اور پاکستان بھارت کے گرد کیسے گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور یہ وزٹ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
اس وقت بڑا چرچہ ہے کہ چین نے بھارت کے بارڈر سے اپنی فوجین ہٹا لی ہیں۔ کیا یہ بھارت کی فتح ہے دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سر ی لنکا اور بھارت چین تنازعہ کا آپس میں کیا تعلق ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کو سمجھنے کے لیئے ضروری ہے کہ ہم ا س بات کو سمجھ لیں کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ ہوں اگر کوئی ہمسایہ ممالک مسلسل مسائل کھڑا کرتا رہے تو ترقی کا سفر جاری رکھنا مشکل ہو جاتا ہے یا پھر اس میں اتنی رکاوٹیں آ جاتی ہیں کہ دنوں کے کام سالوں پر محیط ہو جاتے ہیں۔ پہلے ہم بات کرتے ہیں چین اور بھارت کے درمیان لداخ میں ہونے والی ڈویلپمنٹ کی ، چین اور بھارت کے درمیان ایک سے زیادہ جگہ پر تنازعات ہیں۔ چین دنیا کی سپر پاور بننا چاہتا ہے جبکہ بھارت امریکہ کی مدد سے خطے کا تائیگر بننے کا خواہش مند ہے۔ ان دونوں کے تعلقات وقتی طور پر تو ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن مکمل امن کے لیئے ضروری ہے کہ دونوں میں سے ایک فریق اپنی ہار مان جائے اور دوسرے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کرے۔ اس کے لیئے چین کو اپنے سپر پاور بننے کے خواب کو سائیڈ پر رکھنا پڑے گا جو کسی صورت ممکن نہیں ، اس خواب کے لیئے وہ امریکہ ، یورپ سمیت پوری دنیا سے ٹکرانے کے لیئے تیار ہے تو بھارت کس کھیت کی مولی ہے جبکہ چین پاکستان کو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا پاکستان نے ہر برے وقت میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ چین کا قابل اعتماد ساتھی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اپنے ڈیفینس کی ضروریات کو امریکہ سے ہٹا کر پاکستان کے ساتھ وابسطہ کر لیا ہے۔ اور پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کے ہوتے ہوئے ایک میان میں نہیں آ سکتے۔ جبکہ بھارت چین اور پاکستان کے تعاون کو کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتا اور وہ اس کے راستے میں ہر رکاوٹ کو حائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس مقصد کے لیئے اس نے روس تک کو ناراض کر کے امریکہ کی گود میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور بھارت اپنے ایشین ٹائیگر بننے کے موقف سے کسی صورت پیچھے ہٹنے کے لیئے تیار نہیں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اب یہ چیز تو ثابت ہے کہ دونون کسی بھی لحاظ سے پیچھے ہٹنے کے لیئے تیار نہیں ہیں ۔ اور جب تک پیچھے نہیں ہٹیں گے تو تعلقات ٹھیک ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس وقت بھارت اور چین کے درمیان ساڑھے تین ہزار کلومیٹر سرحد پر EasternWestern اور مڈل بارڈر پر جگڑا ہے۔ ایک طرف لداخ ہے تو دوسری طرف سکم جبکہ ارونا چل پردیش کو چین اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ لداخ والی سائیڈ پر جوwestern border
کہلاتا ہے وہاں بھی بھارت اور چین کے درمیان چار سے زاہد مقامات پر پھڈا ہے۔ DepsangHot springGogra postکے علاوہ ابھی صرفPanggong lake پر فوجیوں کو پیچھے ہٹا یا گیا ہے اور اس کی بھی ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت نے گزشتہ سال اگست کے مہینے میں اہم چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے چین کے لیئے فنگر فور کو چھوڑنا فائدے مند تھا جبکہ چین نے بھارت کو اس کے ہی علاقے میں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔اس لیئے دس مسائل میں سے کسی ایک جگہ پر چند کلومیٹر پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ معاملہ حل ہو گیا ہے۔ چین کسی بھی صورت اپنے تبت کے علاقے اور سی پیک کو متاثر نہیں ہونے دے گا اور اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر کشمیر میں بھارت کی گردن پر بیٹھا ہے اور اس کے لیئے ہر آئے دن مسائل میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

پاکستان اور چین کا ماسٹر سٹروک، گھیرا تنگ، جال بچھ گیا، بھارت کی دوڑیں

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ چین یہ چاہتا ہے کہ جنگ کی صورت میں اسے کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو اور وہ کم سے کم نقصان میں بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے، چین کی یہ پالیسی ہے کہ جہاں وہ مضبوط ہوتا ہے وہ کمزور نظر آنے کی کوشش کرتا ہے اور جہاں وہ کمزور ہوتا ہے وہاں مضبوط ۔۔ تاکہ دشمن کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائے اور اس کی Calculation چین کے خلاف غلط ثابت ہو۔ چین چاہتا ہے کہ اگر بھارت کے پاس تلوار ہو تو وہ نیزا استعمال کرے، اگر بھارت کے پاس بندوق ہو تو چین توپ استعمال کرے اور اگر بھارت کے پاس توپ ہو تو چین جنگی جہاز استعمال کرے اور جنگی قابلیت میں بھارت کو اپنے قریب بھی نہ بھٹکنے دے۔ تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔اس مقصد کے لیئے چین نے جنگی بنیادوں پر PLA میں تبدیلیاں کرنا شروع کر دی ہیں اور وہ بیک وقت نہ صرف امریکہ بلکہ خطے میں اس کے اتحادیوں کو بھی کاونٹر کرنے کی Streategy پر گامزن ہے۔ اس حوالے سے بھارت نہ صرف خطے میں بھارت کے اتحادی ہمسایوں کو اس سے دور کر رہا ہے بلکہ زمین، خلا، سمندر اور Cyber کے میدان میں اس کے خلاف جال بچھا رہا ہے۔ بڑے بڑے ڈیم بنا کر بھارت کی خشک سالی کا منصوبہ شروع کر دیا گیا ہے چین اپنی نئی جنگ informationاور Intelligence کی بنیاد پر لڑنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیئے اپنیStreategic short coming پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے۔ چین ہمیشہ ایک پالیسی پر گامزی رہتا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جس کے مطابق اگر وہ بھاگ سکتا ہے تو بھاگتا ہے، اگر وہ چل سکتا ہے تو چلتا ہے اور اگر وہ رینگ سکتا ہے تو رینگتا ہے لیکن وہ کسی بھی صورت ایک جگہ پر کھڑا نہیں ہوتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے دورہ سری لنکا کو دنیا اسی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت اور سری لنکا کے آپس میں اچھے تعلقات ہیں لیکن دنیا کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح بھارت نے سری لنکا میں تامل ناڈو کی علیحدگی پسند تنظیموں کو سپورٹ کیا اور جیسے پاکستان نے سری لنکا کی ان کا قلا کما کرنے مین مدد کی یہ پاکستان کا سری لنکا پر بہت بڑا احسان ہے یہاں تک کہ پاکستان کے جنگی جہازوں اور پائلٹس نے بھی سری لنکا کی اس میں بڑی مدد کی تھی۔ بھارت کے قابل ذکر ہمسایوں میں پاکستان، نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش ، میانمار اور چین شامل ہیں۔ چین اور پاکستان کی بھارت سے محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت اپنے چھوٹے ہمسایہ ممالک کی
Arm twisting کے لیئے Regime change جیسے کھیل بھی کھیل رہا تھا اور اس کی ایک بڑی مثال بنگلہ دیش میں حسینہ واجد ہیں ۔ لیکن اب معاملات بدل رہے ہیں، چین نے بنگلہ دیش میں پچیس بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کی ہے
وہاں BridgesHigh tech parksTank, submarine, ports اور پتا نہیں کیا کیا کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی 8256اشیا پر ٹیرف پچانوے فیصد سے بھی کم کر دیا ہے، جس کے اثرات ہمیں واضح طور پر نظر آئے اور پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آئی جبکہ چین نے دریائے برہماپترا پر دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کا اعلان کر کے بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں الگ سے کیل ٹھوک دیا ہے۔ اس سے پہلے بھارت اور بنگلہ دیش میں دریائے برہما پترا کے پانی کی تقسیم پر پھڈا چل رہا ہے بھارت اس کا55% جبکہ بنگلہ دیش اس کا 45% پانی استعمال کر رہا ہے۔ اور بنگلہ دیش اسے50\50کرنا چاہتا ہے لیکن چین کے ڈیم کے بعد بھارت بھی اس پر ڈیم بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو بنگلہ دیش کو کسی صورت قبول نہیں اور اس سے ان دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے۔ چین میانمار کے ذریعہ Indian ocean تک پہنچنے کے منصوبے پر کام کر چکا ہے اور چین کے میانمار کے اثرو رسوخ کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہان فوج کے حکومت پلٹنے کے پیچے بھی چین کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ جہاں تک نیپال کی بات ہے تو وہاں بھی چین پاکستان کی مدد سے اسے سی پیک کا حصہ بنا رہا ہے جس کے بعد نیپال کو اپنی برآمدات اور درآمدات کے لیئے بھارت کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ نیپال ایک Landlockedملک ہے۔ بھوٹان پر ابھی تک بھارت کا اثرورسوخ ہے جس پر چین سکم کی طرف سے بڑی تیزی سے کام کر رہا ہے۔ اگر چین اس میں کامیاب ہو گیا تو بھارت کی Siliguri corridor پر گردن دبا کر سات ریاستوں کو الگ کرنا بھی مشکل نہیں ہو گا۔ چین بنگلہ دیش کی طرف سے بھی اس corridor کے ساتھ بھاری انویسٹمنٹ کر رہا ہے۔یہ بات تہہ ہے کہ بھارت کو کشمیر اور ارونا چل پردیش سے ایک نہ ایک دن ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اب بات کرتے ہیں سری لنکا کی۔اس وقت پاکستان سمیت دیگر جگہوں پر یہ تاثر دیاجا رہا ہے کہ شائد وزیر اعظم پاکستان کے دورہ سری لنکا کا مقصد سری لنکا میں موجود دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کے حقوق دلوانا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان دنیا بھر کے پلیٹ فارمز پر چاہے فرانس کا معاملہ ہو یا توہین رسالت کاIslmaophobiaپر کھل کر بات کرتے آ رہے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملکی مفاد ہی دور حاضر میں اصل حقیقت ہے۔ اور یہ ہم سعودی عرب اور عرب امارات کے معاملے میں دیکھ چکے ہیں ۔ عمران خان کوشش کریں گے سری لنکا کے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلوا سکیں لیکن مسلمان ایغور میں بھی ہیں جنہیں قومی مفاد پر ترجیح نہیں د ی گئی۔ ہمیں افسانوی قصے کہانیوں سے نکل کر دنیا کی تلخ حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ عمران خان کے دورہ سری لنکا کا اصل مقصد بھارت کے تابوط میں آخری کیل ٹھوک کر اسے سری لنکا سے نکالنا ہے۔ اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہے۔ سری لنکا نے اپنی ایک بندرگارHambantota چین کو نناوے سال کی لیز پر دی ہوئی ہے جس سے بھارت کا چین کا سمندری راستہ روکنے کا خواب چکنا چور ہو گیا تھا جبکہ بھارت نے دو ہزار انیس میں سری لنکا میںColombo portپر East Container Terminalبنانے کا معاہدہ کیا تھا جسے سری لنکا نے فارغ کر دیا ہے اور اب بھارت اس پر شور مچا رہا ہے جبکہ عمران خان کے پارلیمنٹ میں خطاب کینسل کرنے کو بھارت کو خوش کرنے سے جوڑا جا رہا ہے اگر سری لنکا کو بھارت کو خوش کرنے کی اتنی ہی ٹینشن ہوتی تو کبھی بھی اس معاہدے کو کینسل کر کے یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ اسے اب سری لنکا کی پورٹ اٹھارتی مکمل کرے گئی۔ چین اپنے تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان اور سری لنکا کے تعلقات کو بھی بھارت کو سبق سیکھانے کے لیئے استعمال کر رہا ہے۔

مبشر لقمان کا کہنا تھا کہ اس دورے میںbusiness and investment forumسمیتsports diplomacy پر بھی بات کی جائے گی اور بھارت کو سری لنکا سے نکالنے کے لیئے تمام آپشن پر غور کیا جائے گا۔جبکہ سری لنکا چاہتا ہے کہ اقوام متحدہ میں سری لنکا کے خلاف ہیومن رائٹ کے معاملات میں پاکستانOIC ممالک سے اسے حمایت دلوائے اور اس کے مسائل حل کرے اس کے بدلے میں اگر سری لنکا کے مسلمانوں کے مسائل حل ہوجائیں جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک مسلمان کے لیئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا ہے تو عمران خان کی ایک بڑی اخلاقی اور سفارتی فتح ہو جائے گی۔ لیکن اس دورہ کا اصل مقصد صرف اور صرف بھارت کی ٹانگیں باندھنا اور اسے اس خطے میں تنہا کر نا ہے جس میں پاکستان اور چین 70% سے زیادہ کامیاب ہو چکا ہے۔

Leave a reply