پاکستان اور بھارت کے صحافیوں کی مشترکہ ورکشاپ،پہلے ہی روز بدمزگی کا شکار

0
63

پاکستان اور بھارت کے صحافیوں کی مشترکہ ورکشاپ،پہلے ہی روز بدمزگی کا شکار

امریکی تنظیم ایسٹ ویسٹ سنٹر کے زیر انتظام کراس بارڈر رپورٹنگ کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے صحافیوں کی مشترکہ ورکشاپ نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں شروع ہوگئی۔

7 روزہ ورکشاپ پہلے ہی روز اس وقت بدمزگی کا شکار ہو گئی جب ورکشاپ کے مہمان خصوصی نیپال کے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹر کنک مانی ڈکشٹ نے اپنی تقریر میں پاکستان میں بلوچستان کے مبینہ خراب حالات اور بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کے ذمہ دار بھارت اور پاکستان کو ٹھہرا دیا جب کہ کرتار پور راہداری اور مقبوضہ کشمیر کے حالات پر متنازعہ گفتگو شروع کردی۔ بھارت میں بی بی سی کے لئے کام کرنے والے سینیئر صحافی رویندر سنگھ روبن نے ان کو آڑے ہاتھوں لیا اور متذکرہ چاروں موضوعات پر بات کرنے پر ان سے وضاحت طلب کر لی کہ وہ ایسے موضوعات پر کیوں گفتگو کر رہے ہیں جو پاکستان اور بھارت کے دونوں کے لئے متنازعہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے صحافی یہاں پر پاک بھارت غیر سیاسی موضوعات پر بات کرنے اور صحافت کے امور سیکھنے کے لئے آئے ہیں بلوچستان، پنجاب یا کشمیر کا موضوع ورکشاپ کا حصہ نہیں ایسے موضوعات پر متنازعہ گفتگو کا مقصد غیر ضروری پراپیگنڈا کرنا ہے اور یہاں موجود صحافی اس پراپیگنڈا کا حصہ بننے کو تیار نہیں جس پر دیگر بھارتی اور پاکستانی صحافیوں نے بھی اپنا اعتراض ریکارڈ کروا دیا۔

وہاں موجود ایک صحافی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات میں بھارت کو اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کو ملوث کرنے کی باتوں کے لئے یہ ورکشاپ مناسب فورم نہیں اور نہ ہی پنجاب میں خالصتان تحریک کے حوالے سے یہاں گفتگو مناسب ہے۔ چنڈی گڑھ پریس کلب کے سابق صدر نوین گریوال نے کہا کہ کرتار پور راہداری کھلنے کے بعد عمران خان کے قریبی دوست نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ ان کی مقبولیت میں بے حد کمی آگئی۔ پاکستان نے روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار سکھ یاتریوں کے لئے راہداری کھولی لیکن بھارت سے جانے والوں کی تعداد بہت کم ہے جس کی وجوہات کا تذکرہ بھی اس فورم میں کرنا مناسب نہیں ہے۔

نیپالی اخبار کے ایڈیٹر نے ان اعتراضات کے بعد فوری طور ہال سے واپس چلے گئے۔ ورکشاپ میں لاہور پریس کلب کے فنانس سیکرٹری شیراز حسنات، خالد محمود خالد سمیت پاکستان سے 32، بھارت سے 27 اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے کئی صحافی اس ورکشاپ میں شرکت کے لئے کٹھمنڈو میں موجود ہیں۔ پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے اعلی افسران بھی ورکشاپ میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر کٹھمنڈو پہنچے ہیں۔ 

Leave a reply