پاکستانی عدالتی نظام اور مدینہ کی ریاست…..از….سید زید زمان حامد

0
53

سیدنا علیؓ نے فرمایا تھا کہ حکومتیں کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہیں، مگر ظلم کے ساتھ نہیں!آج پاکستان میں ہر فساد کی جڑ یہ ہے کہ یہاں عدالتی نظام 1860 ءکا وہ نو آبادیاتی نظام ہے کہ جو اس وقت کے حاکم انگریزوں نے مقامی لوگوں کو غلام رکھنے کیلئے بنایا تھا۔

انگریزوں کا بنایا ہوا پونے دو سو سال پرانا انگلیو سیکسن عدالتی نظام اور قوانین ظلم اور استبداد کی وہ بدترین مثال ہیں کہ جس کی سفاکی اور غلاظت کی کوئی انتہائی نہیں ہے۔یہ نظام عدل کیلئے نہیں، جبر کیلئے بنایا گیا تھا۔انگریزوں کے بنائے ہوئے اس سفاکانہ عدالتی نظام کی بنیاد وکالت کے پیشے پر ہے۔ جب ایک پیشہ ہی ایسا بنایا دیا جائے کہ جس کا ذریعہ آمدن جھوٹ بول کر مقدمات کو طول دینے میں ہو، تو انصاف کا جنازہ تو یہیں نکل جاتا ہے۔اس نظام کی بنیاد ایسے رکھی گئی ہے کہ جج، وکیلوں کے دلائل اور شہادتوں کی بنیاد پر ہی فیصلے کرتا ہے۔ جج بذات خود تحقیق نہیں کرسکتا، بلکہ جھوٹی گواہیوں اور وکیلوں کے پیچیدہ دلائل کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ عدل کے بجائے قانونی پیچیدگیوں پر زور ہوتا ہے۔ ظلم و استبداد کا یہ نو آبادیاتی عدالتی نظام نہ صرف کفر ہے بلکہ پاکستان کے پورے معاشی نظام کو درہم برہم کرنے کا بھی ذمہ دار۔

چاہے وراثت کا مقدمہ ہو یا قتل کا، زمین کا تنازعہ ہو یا ملک و قوم کے خلاف غداری کا، انصاف کئی کئی برس بعد بھی نہیں ملتا۔قاتل، ڈاکو اور راہزن قیمتی سے قیمتی وکیل کرکے، قانونی پیچیدگیوں کو استعمال کرتے ہوئے، اپنے مقدمات کو سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں برسوں گھسیٹ کر سزا سے بچ جاتے ہیں۔ غریب آدمی تو صرف تھک کر ہی ترستا رہ جاتا ہے۔سب سے کم تجربہ کار اور اکثر نا اہل ترین جج سیشن کورٹ میں لگائے جاتے ہیں۔ پھر ان کی اپیلیں برسوں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چلتی ہیں۔ مقدمے کی نکل نکلوانے کیلئے بھی عدالتی عملہ پیسے لیتا ہے۔ پورے کا پورا نظام ہی فرعونیت اور ظلم و استبداد پر مبنی ہے۔

پاکستان میں گو کہ ہر نظام ہی گلا سڑا اور بوسیدہ ہے، مگر ان سب میں عدالتی نظام سب سے زیادہ غلیظ اور کینسر شدہ ہے۔ شریف انسان تو عدالت کا نام سن کر خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے، کہ یہاں عدالت ظلم و استبداد کا دور دورہ ہے۔ اسلام تو دور کی بات، یہاں تو عام درجے کی انسانیت بھی نصیب نہیں ہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان ”پرانا“ ہو یا ”نیا“۔۔۔ اگر یہی عدالتی نظام چلتا رہا تو ملک میں ظلم و استبداد اور کفر ہمیشہ قائم رہے گا۔ نہ عدل ہوگا، نہ انصاف فوری ہوگا، نہ مفت ہوگا، نہ گھر کی دہلیز پر ہوگا، اور پورا معاشرہ فساد میں مبتلا رہے گا۔ تحریک ”انصاف“ بھی تحریک ”ظلم“ ہی رہے گی!!!

اسلامی عدالتی نظام کی بنیاد عدل پر ہے۔ انصاف فوری ہوتا ہے، ہوتا ہوا نظر آتا ہے، قاضی خود تحقیق و تفتیش کرتا ہے، انصاف مفت ہوتا ہے اور اس میں وکیلوں کے جھوٹ اور ان کی بھاری فیسوں کی کوئی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں!یہ انتہائی انقلابی عدالتی نظام ہے!

ہماری پوری اسلامی تاریخ میں ہمیں یہ لاکھوں مثالیں ملتی ہیں کہ قتل جیسے مقدموں کے فیصلے بھی ایک ایک گھنٹے میں کیے گیے ہیں، مجرموں کو فوری سزا دی جاتی ہے، عدل مفت ہوتا ہے، سائل عدالت میں آکر خود کو محفوظ تصور کرتا ہے، وکیلوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔

کیوں آج ہم پاکستان میں اسلامی شرعی عدالتی نظام قائم نہیں کرسکتے؟اسلامی شرعی عدالت میں نہ قاتلوں اور ڈاکوﺅں میں بھاری فیس لیکر وکیل بچا سکتے ہیں، نہ قانونی پیچیدگیاں عدل و انصاف کی راہ میں حائل ہوسکتی ہیں۔ اگر قتل کیا ہے تو یا قصاص ہوگا یا معافی یا سولی!نہ کوئی اپیل، نہ کوئی تاخیر!

پاکستانی قانون میں صدر پاکستان کو قاتل کی سزا معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ قطعاً حرام اور غیر شرعی عمل ہے۔ قاتل کو معاف کرنے کا حق صرف مقتول کے ورثاءکو ہوسکتا ہے۔اگر انصاف حاصل کرنے کیلئے لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑیں، سالوں انتظار کرنا پڑے، تو یہ نظام کفر اور ظلم کا کہلائے گا۔آج بھی پاکستان میں کئی طرح کی عدالتیں چل رہی ہیں۔ انگریزی عدالتیں بھی ہیں، فوجی عدالتیں بھی ہیں، شرعی عدالت کے نام پر ایک مذاق بھی ہے، جرگے بھی ہیں۔۔۔ تو پھر کیا حرج ہے کہ ریاست اصلی اسلامی شرعی عدالتیں بنا کر اپنی نگرانی میں لوگوں کو انصاف فراہم کرے؟

ایک مرتبہ کرکے تو دیکھیں۔ جب قاتل پکڑا جاتا ہے، ثبوت موجود ہیں، خود اقرار کررہا ہے، گواہ موجود ہیں، تو پھر قتل کے مقدمے کا فیصلہ 15 منٹ میں کیوں نہیں کیا جاسکتا؟کیا ضروری ہے کہ انصاف کیلئے، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بیس سال کے سفر کو لاکھوں روپے دے کر طے کیا جائے؟

ہمیں پاکستان میں ہر حال میں قصاص کو نافذ کرنا ہے۔ہر حال میں چور کے ہاتھ کاٹنے ہیں۔ہر حال میں ڈاکو کو سولی چڑھانا ہے۔ہر حال میں وراثت کو فوری تقسیم کرنا ہے۔ہر حال میں انصاف کو مفت، فوری اور گھر کی دہلیز تک پہنچانا ہے۔پاکستان میں 90 فیصد مقدمات بہت آسانی سے چند گھنٹوں یا چند دنوں میں شرعی عدالتوں میں نبٹائے جاسکتے ہیں۔

صرف حکومتی، معاشی یا کاروباری مقدمات کچھ ایسے ہونگے کہ جن کیلئے بین الاقوامی قوانین کی پابندی مجبوری ہو۔ ورنہ معاشرے میں عدل قائم کرنے کیلئے انصاف مفت اور فوری کرنا ہوگا۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت یہ جرا ¿ت نہیں کرسکتی، تو پھر ”انصاف“ اور ”تبدیلی“ کا ڈرامہ بند کرے، اور کھل کر کہے کہ ہم بھی انگریزوں کے نظام کو جاری رکھنے کیلئے ہی آئے ہیں۔ملک میں جو لاکھوں وکیل ہیں، بدقسمتی سے شریعت اور انصاف کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔یہ بات بالکل طے ہے کہ ہمیں معاشرے میں اگر عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے تو اس کیلئے پورے عدالتی نظام میں فوری طورپر ہماری بتائی ہوئی انقلابی تبدیلیاں لانی ہونگی۔ پہلی عدالت میں ہی قابل ترین قاضی لگا کر محکم فیصلے کرنے ہونگے کہ جو فوری اور مفت انصاف یقینی بنائیں۔

اس بات پر غور کریں کہ اسلامی عدالتی نظام میں جیلوں کا تصور نہیں ہے۔ یا مجرم کو سزا دی جاتی ہے، یا دیت لی جاتی ہے، یا معاف کردیا جاتا ہے۔ مگر جیلوں میں رکھ کر سڑانے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ذرا سوچیں کہ اگر شریعت نافذ ہوجائے تو ملک کی جیلیں خالی ہوجائیں گی۔۔۔

اللہ جب چاہے گا، اپنے ایسے شیر دلیر بندوں کو پاکستان کی حکمرانی دے گا کہ جو حقیقی معنوں میں ”تبدیلی“ لیکر آئیں گے۔ عدل و انصاف کو فوری، یقینی، بے لاگ اور مفت بنائیں گے۔ شریعت نافذ کریں گے، ظلم کا خاتمہ کریں گے، اور پاکستان کو حقیقت میں ”مدینہ کی ریاست“ بنائیں گے۔ ان شاءاللہ!!!!

پاکستانی عدالتی نظام اور مدینہ کی ریاست
تحریر: سید زید زمان حامد

Leave a reply