‏پاکستان کا مطلب کیا؟؟؟ (از قلم محمد وقاص شریف

0
57

ایک حاجی صاحب بہت ہی دیندار، نماز کے پابند، ہر وقت ذکر کرنے والے تھے,اور ہر ایک سے محبت سے پیش آتے، یہاں تک کہ سب ان سے محبت کرتے اور انکی باتیں توجہ، دھیان سے سنتے اور انکی ہر بات مانتے تھے۔

حاجی صاحب نے لوگوں سے کہا: کہ ہم سب مسلمان ہیں، اس علاقے میں اکثر ہندو ہیں اور ہمارے علاقے میں قریب کوئی مسجد نہیں، ہمیں اپنے علاقے میں ایک مسجد کی ضرورت ہے تاکہ اپنے علاقے میں ہی ہم پانچ وقت نماز پابندی سے پڑھ سکیں،اور ہمارے بچے بھی دینی تعلیم حاصل کریں،جس کے لیے آپ سب کو اس کام میں ہمارا ساتھ دینا ہوگا،کیونکہ یہ ایک بندے کا کام نہیں۔

تمام لوگوں نے حاجی صاحب کا ساتھ دیا، اور حاجی صاحب کے پاس اتنی طاقت آگئی کہ وہ مسجد بناسکیں،لیکن انہی دنوں حاجی صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی، اور حاجی صاحب نے اس کام 

میں اپنے ساتھ ایک کمیٹی بنالی۔

حاجی صاحب نے کئی دفعہ اپنی کمیٹی کو صاف الفاظ میں کہا : کہ لوگوں کے پیسے ہمارے پاس امانت ہیں،لوگ چاہے ہم سے مطالبہ نہ بھی کریں لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم نے جس مقصد کے لیے لوگوں سے مدد مانگی، اور لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا ہم وہ کام پوری ایمانداری سے سر انجام دیں۔

حاجی صاحب کا کچھ ہی دنوں بعد انتقال ہوگیا اور پھر کمیٹی کا صدر ایک لالچی اور مفاد پرست شخص بن گیا،اور حاجی صاحب کے آخری رسومات میں بہت سا وقت گذر گیا۔

کمیٹی کے کچھ لوگوں نے کہا بھی کہ اب ہمیں کام شروع کرا دینا چاہیے، لیکن صدر ٹال مٹول کرتا رہا، اور اس طرح کے لوگوں کو کمیٹی سے نکال کر اپنے مطلب کے لوگوں کو کمیٹی میں رکھ لیا جو اس کی ہر بات میں ہاں ملاتے ہوں۔

اب وہ مسجد کی جگہ بھی موجود ہے، کمیٹی بھی موجود ہے لیکن مسجد نہیں بن رہی، لوگوں نے جب اس معاملے کو اٹھایا تو صدر نے بڑے طریقے سے کاغذات اپنے نام کراکر انہیں ہی فساد کرنے والا ثابت کرکے ڈنڈے مرواے۔

صدر نے کچھ پیسے کھلا کر وہ مسجد کا پلاٹ اپنے نام کرالیا، اور اس پر اپنی کوٹھی اور بنگلہ بنالیا۔

لیکن عوام کو جب یہ معلوم ہوا کہ اندر ہی اندر کام خراب ہوچکا ہے عوام اس صدر کے خلاف کھڑی ہوگئی، صدر نے عوام کو تھانوں سے ڈرایا اور ان پر لاٹھی چارج بھی کروائی۔

اب آپ مجھے بتائیں! 

کہ مسجد کے پلاٹ پر صدر نے جو اپنا ذاتی بنگلہ بنالیا اور کاغذات وغیرہ سب اپنے نام کرالیے لیکن یہ دھوکے سے کیا، کیا یہ صحیح ہے اسے عوام تسلیم کرلے؟ 

یا عوام جنہوں نے مسجد کے لیے چندہ دیا، جنہوں نے لوگوں کو اس کے لیے راغب کیا، وہ اب تک بھی موجود ہیں، وہ اپنے حق کے مطالبہ پر ہیں کہ پلاٹ مسجد کا ہے،اسے وقف کرنے والوں نے مسجد کے لیے وقف کیا، اور ہر ایک نے مسجد کے نام پر مسجد کے لیے جو ہوسکا دیا۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ہم پر جو تشدد کروانا ہے کروا لو، جو ظلم کرنا ہے کرلو، اور جو نام دینا ہے دیدو! لیکن ہم مسجد کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔

بظاہرا چاہے وہ صدر کمٹی طاقتور ہے لیکن وہ غلط ہے، اور 

بظاہرا یہ عوام چاہے کمزور ہیں، اور کوئی بھی حق کے لیے انکا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں لیکن یہ حق پر ہیں! 

اب آپ بتائیں! 

آپ کس کا ساتھ دینگے!

سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا!

کیونکہ اگر صدر کمیٹی کاساتھ دو گے تو قیامت کے دن اسی ظالم کے ساتھ جاو گے۔

اور اگر عوام کا ساتھ دو گے تو ہوسکتا ہے تمھیں بھی ظلم کا نشانہ بنایا جاے تم پر بھی تشدد کیا جاے؟؟؟

جی اگر آپ نے فیصلہ کرلیا ہے تو اب پورے غور و توجہ سے سنیں۔

مسلمانوں کو پاکستان کا مطلب کیا

لاالہ الہ الا اللہ کے نام پر اپنے ساتھ کیا گیا۔

اسی کے نام پر ان سے قربانیاں مانگیں گئیں۔

اور اسی کے نام پر مسلمانوں نے اتنی بڑی قربانیاں دیں۔مسلمانوں نوجوان بیٹیوں کی عزتیں اسی کلمہ کے لیے تار تار کی گئیں۔

اسی کلمہ کے لیے شہیدوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔

اسی کلمہ کے لیے اپنے بچے قربان کیے۔

اسی کلمہ کے لیے اپنے گھر بار،کاروبار،زمین، خاندان اور وطن تک قربان کیا گیا۔

لیکن پھر ہوا کیا؟ 

یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ صرف قائد اعظم کا صرف سیاسی نعرہ تھا۔ لیکن قائد اعظم کی سچائی ایمانداری، ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس طرح کرسکتے ہیں۔ 

بلکہ ان کے بعد والوں نے اس وطن کو جو کلمہ کے نام پر بنا۔

جس کا مطلب ہی لا الہ الا اللہ تھا۔

اس لاالہ کے دیس کو اس کے مقصد سے دور کردیا۔

اس پاک سرزمین پر پلید انگریزوں کے قانون کو نافذ کیا اور جاری رکھا۔

اس وقت سے اب تک علماء کرام بتاتے آرہے ہیں کہ یہ 

اللہ سے عہد شکنی ہے۔

اور تمام مسلمانوں سے جنہوں نے پاکستان کی آزادی کے لیے لالہ کے نام پر قربانیاں دیں، ان سے وعدہ خلافی ہے۔

شہیدوں کی روحوں سے بے وفائی ہے۔

اور اسی وجہ سے اللہ ناراض ہے اور اسی وجہ سے ہم پر دنیاوی عذاب بھی آئے ہیں، اور جب تک ہم واپس اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتے ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔

لیکن ان انگریز کے کتے نہلانے والوں کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی۔

افسوس اس بات کا نہیں کہ آج تک اس ملک میں اسلامی نظام کیوں نافذ نہیں ہوا؟

افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اپنی قربانیاں بھلادیں۔

ہم مسلمانوں نے صرف نوکری، مال و دولت کے لیے یہ یہ قربانیاں نہیں دی تھی، اس سے زیادہ مال و دولت تو مسلمان وہاں چھوڑ کر کلمہ کے نام پر آگئے تھے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ

 اسلامی نظام کی کوشش میں رکاوٹ بننے والے بھی مسلمان ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ جس ملک کا آئین اسلامی ہو اسی ملک میں اسلام کے نفاظ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے

جو ہمیں ہمارا بھولا سبق یاد دلاتے ہیں ہم انہیں ہی برا سمجھتے ہیں بلکہ انہی کو غدار کہا جاتا ہے۔

آپ مجھے نظریہ پاکستان، لاالہ الاللہ اور شریعت کاغدار کیا پاکستان کا غدار نہیں!

افسوس اس بات کا ہے

لاالہ کے دیس میں بے حیائی جان بوجھ کر پھیلائی جارہی ہے۔ کوئی کہنے والا نہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ 

لاالہ کے دیس میں شراب خانوں کی اجازت باقاعدہ حکومت دیتی ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ لاالہ کے دیس میں

رنڈی خانوں،لال بازار اور چکلوں کی باقاعدہ اجازت، سرپرستی اور حفاظت کی جاتی ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ

لاالہ کے دیس میں آئے روز قادیانیوں کے لیے راہیں ہموار کی جارہی ہیں، انہیں عہدے دیے جارہےہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ لاالہ کے دیس میں

گستاخوں کو عدالتوں سے سزا ہوجانے کے بعد بھی یہودیوں کے کہنے پر عزت سے رہا کردیا جاتا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ 

لاالہ کے دیس میں بڑے بڑے نامور علماء کرام پر خود کش حملے کیے جاتے ہیں اور انہیں شہید کردیا جاتا ہے اور پھر انکے قاتل یا تو ملتے ہی نہیں یا پھر انہیں سزا نہیں ملتی۔

میں عوام اور وقت کے حکمرانوں سے صاف صاف،علی الاعلان، ببانگ دھل،ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے اللہ سے کیے گئے وعدے،شہیدوں کی قربانیوں کو دیکھو!

اور اپنے مقصد کے لیے جو بھی ہوسکے کرو،تم کمزور ہو نہیں کرسکتے تو جو کررہا ہے جو اس کے لیے آواز بلند کرے اس کا ساتھ دو!

ورنہ ہم اللہ سے عہد شکنی کے مجرم ہیں۔ شہیدوں کی روحوں سے وعدہ خلافی کے مجرم ہیں۔

اور جن کو کلمہ کے نام پر قربانیوں کے لیے تیار کیا تھا۔ ان سے بے وفائی کے مجرم ہیں۔

اور جب تک اس مقصد پر نہیں آتے جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا تھا،تمھاری نمازیں،تمھارے روزے تمھارے وظیفے اور تمھاری نیکیاں خود سوچو کہ اللہ کے پاس انکا کیا وزن ہوگا۔

@joinwsharif

Leave a reply