پاکستان، خواب سے تعبیر تک بقلم :علی حسن اصغر ، لاہور

0
46

پاکستان، خواب سے تعبیر تک
علی حسن اصغر ، لاہور

عشق و آزادی بہار زیست کا سامان ہے
عشق میری زندگی آزادی میرا ایمان ہے
عشق پہ کردوں فدا میں اپنی ساری زندگی
اور آزادی پر میرا عشق بھی قربان ہے

پاکستان آج سے بہتر سال پہلے 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پرابھرا۔ پاکستان کو قیام میں آنے سے پہلے اور قیام میں آنے کے بعد بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ بدقسمتی سے ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ہم انہیں مسائل سمجھتے ہی نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد بھارت کو جب ہماری ترقی برداشت نہیں ہوئی تو اس نے یکے بعد دیگرے پاکستان پر چارجنگیں مسلط کیں لیکن وہاں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اس پر یہ بات عیاں ہوچکی کہ پاکستان کو میدان جنگ میں ہرانا ناممکن ہے تو پھراس نے سردجنگ کا سہارا لیا ۔ اس جنگ کا جس پر ہم ہنستے ہیں یعنی لطیفوں کے ذریعے پاکستان کی عوام میں تعصبات پیدا کرنا ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری پشتون برادری انتہائی نازک احساسات رکھتی ہے ان احساسات کو پچھلے کئی سالوں سے مجروح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان پر اب تک ان گنت لطیفے بن چکے ہیں ۔لیکن کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جب ہم اس لطیفے سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں تو ہمارے پٹھان بھائیوں پر اس وقت کیا بیتتی ہے؟یقیناً یہ بات ہم نے کبھی نہیں سوچی۔ اس بات سے تو ہم سب آشنا ہیں کہ بھارت اپنی خفیہ ایجنسی را کے ذریعے خیبرپختونخوا کو ایک علیحدہ ملک پختونستان بنانے کے درپے ہے اور بلوچستان کو بھی علیحدہ کروانا چاہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر بلوچستان کی تمام معدنیات کو استعمال کیا گیا تو پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا اور ان لطیفوں کے ذریعے وہ سب کو ایک دوسرے سے دور کر رہا ہے یعنی
DIVIDE AND RULE
ہمیں چاہیے کہ ہم ان لطیفوں کو سختی سے رد کریں اور اپنے بھائیوں کے دلوں میں نفاق کا جو پودا بویا جا رہا ہے اسے جڑ سے اکھاڑ دیں تاکہ کہ تعصب کی اس زہریلی ہوا کو ختم کیا جاسکے۔
اسی طرح پاکستان کے عوام پر بھی اتنے لطیفے بن چکے ہیں کہ اگر پاکستانی عوام کا ذکر بھی آجائے تو ہمارے ذہن میں فوراً کیا سوچ آتی ہے؟ یہی کہ بے ایمان، نکمی، نالائق، ایک ایسے ملک میں رہنے والی عوام جہاں بنیادی سہولیات بھی نہیں ہیں، جہاں ترقی کے مواقع بھی میسر نہیں، جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے۔
اپنے بارے میں ہمارا یہ نظریہ بالکل درست نہیں۔ پاکستان میں ترقی کے مواقع بھی میسر ہیں اور سہولیات بھی، پاکستانی عوام ہنر مند بھی ہے اور ایماندار بھی، اگر آج بھی کوئی عورت بغیر کسی خوف کے گھر سے باہر نکل سکتی ہے تو یہ اس کا پاکستان پر بھروسہ ہے یا پاکستانی عوام کی غیرت مندی ، اگر ہم ناساز حالات میں بغیر کسی کی مدد کے ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی عوام ہنر مند نہیں ؟ پاکستان میں آج بھی ارفع جیسے قابل اور مند لوگ ہیں ۔ پاکستان کے متعلق جتنی بھی منفی سوچیں پائی جاتی ہیں حقیقت میں انکی کچھ بنیاد نہیں۔ پاکستان کی قوت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان دنیا کی چھٹی بڑی فوج رکھتا ہے جس میں خودکشی کی شرح 0% ہے جبکہ اس کے برعکس بھارت کی فوج میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہے ۔ پاکستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ دنیا کی نمک کی دوسری بڑی کان (کھیوڑا) پاکستان میں موجود ہے ۔ سوئی کے مقام پر نکلنے والی گیس کے ذخیرے کا شمار دنیا کے بڑے ذخیروں میں ہوتا ہے۔ دنیا کا بہترین نہری نظام، تھر کا کوئلہ، معدنیات سے مالامال بلوچستان، الغرض پاکستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔
پاکستان کو اتنے چھوٹے پیمانے پر ماپنا اور کہہ دینا کے پاکستان میں ہے ہی کیا؟ کیا یہ اس ملک کے درودیوار سے غداری نہیں ہے؟ وہ ملک جس نے ہمیں بچپن سے اب تک محفوظ پناہ گاہ دی اور ہمیں آزاد زندگی گزارنےکا موقع فراہم کیا اس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ پاکستان نے آج تک ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ کیا یہ احسان فراموشی نہیں ہے؟ ہمیں ان سب باتوں پر غور کرنا چاہئے مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایسا کہنے والوں کی ہاں میں ہاں ملاتے چلے جاتے ہیں ۔ ہم نے کبھی اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ پاکستان اسرائیل اور بھارت کی آنکھوں میں چبھتا کتنا بڑا کانٹا ہے اور وہ یہ پروپیگنڈا کیوں کر رہے ہیں۔
آئیں اس پروپیگنڈے کو ناکام بنائیں۔ پاکستانی عوام کا حوصلہ اور عزم بلند رکھیں ۔ یہ وطن ہمارے آباؤ اجداد کے خون پسینے سے اور ان کی لاکھوں قربانیوں سے معرض وجود میں آیا۔ یہ وطن اقبال کے خواب کی تعبیر ہے۔ یقینا یہ وہی ملک ہے جس سے متعلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
"مشرق کی جانب سے مجھے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں”
پاکستان اسلام کا حقیقی قلعہ ہے۔ آئیں اس قلعے کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

Leave a reply