پاکستان میں شرعی نظام کیوں نہیں ؟؟ تحریر : محسنؔ خان

0
52

جیسا کہ ہم جانتے ہیں گزشتہ دِنوں میں طالبان نے افغانستان پہ مکمل قبضہ کر لیا ہے جہاں پہ وہ اسلامی قوانین لانا چاہتے ہیں اور ہم پاکستانی عوام اسلامی قانون کی مکمل حمایت کر رہی ہے کیونکہ وہ افغانستان میں جو نافذ کیا جا رہا ہے
شریعت کا نفاذ افغانستان میں ہی کیوں کیا جائے وہاں بھی جمہوری نظام ہی رہے تو ٹھیک ہے ہم پاکستان خود کیوں شریعت کے نفاذ سے ڈر رہے ہیں ؟؟
اس سوال کا جواب ہر ایک پاکستان کا خود کا ضمیر دے گا کہ ہم جمہوری نظام کے حق میں کیوں ہیں کیونکہ یہاں سب کچھ اپنی مرضی سے کیا جا سکتا ہے اگر یہاں پر اسلامی شرعی اصول نافذ ہو گئے تو تمام ہیرا پھیریاں اور بے ایمانیاں ختم ہو جائیں گی ہر پاکستانی خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی بے ایمانی میں ملوث ہے.
ہماری عدلیہ کا نظام سب سے گندا ہے جہاں ایک فیصلہ کیلیے سالوں سال تھانے اور کچہری کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں پولیس تھانوں میں بیٹھی الگ سے لُوٹ رہی ہے اور وکلاء اور جج الگ سے غریب طبقہ اپنے حق کے حصول کیلیے قبر تک پہنچ جاتا ہے اور اسے حق نہیں ملتا.

اگر کوئی ہسپتال ہے تو اس میں ڈاکٹروں کو ہوش نہیں یے کہ کوئی مریض مر رہا ہے وہ صرف پیسے کیلیے کام کر رہے ہوتے ہیں

یہی حال ہمارے سکولوں اور کالجوں کا ہے ہمارے تعلیمی اداروں میں رشوت اور بے حیائی عام ہے
مخلوط تعلیم کے زیر تربیت طالبعلم تعلیمی اداروں میں بے حیائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں عورت کو پردے کی فکر نہیں نیم برہنہ کپڑے تعلیمی اداروں میں پہنے اور بازاروں میں بیچے جا رہے ہیں
ہم جمہوریت کے اس لیے حامی ہیں کہ یہاں پہ پیسے اور سفارش سے جان چھوٹ جاتی یے لیکن شریعت میں ایسا نہیں ہے حقدار کو حق ملتا ہے خواہ وہ جزا ہو یا پھر سزا
ہم جمہوریت کے اس لیے حامی ہیں کہ ہم رشوت اور لوٹ مار کے خاتمے کی وجہ سے ڈرتے ہیں اگر رشوت ستانی اور لوٹ مار ختم ہو گئی تو مالی نقصان ہوگا لیکن ہمیں دینی و روحانی نقصان کی زرا پرواہ نہیں ہے.
طالبان حکومت کے خلاف بہت سے گروہ مہم جوئی میں مصروف ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف دین اسلام کو (نعوزباللّہ) بدترین دین قرار دینا ہے اور اس مہم میں ہمارے کچھ اپنے ایمان فروش لوگ بھی شامل ہیں یہ لوگ طالبانوں کو ظالم اور مسلمانوں کے مذہب اسلام کو ظالم و بربریت کا دین قرار دینے پر تُلے ہوئے ہیں.

شریعت نافذ ہونے سے یہ فائدہ ہوگا کہ کوئی شخص چوری نہیں کرے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسلام میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے لیکن ہم چوری نہیں چھوڑنا چاہتے اسی لیے جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں

کوئی شخص کسی کے مال پہ غاصبانہ قبضہ نہیں کرے گا کیونکہ اسلام میں دو ٹوک فیصلے کا حُکم ہے اس لیے مافیہ کا گروہ شریعت کے خلاف ہے اگر جمہوریت رہی تو جیبیں بھری رہیں گی

سب لوگ صوم و صلوٰۃ کے پابند ہوں گے جیسے جنرل ضیاء کے دور میں صلوٰۃ کمیٹی نے کافی کامیابی سمیٹی لیکن ہم یہاں بھی ایمان کے کچے ہیں حالانکہ نماز کا حکم دیا گیا ہے مگر ہم لوگ نماز نہیں پڑھنا چاہتے ہمارا نظریہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ ہم قرآن سے زیادہ تعویز دھاگوں کو ترجیح دیتے ہیں

کوئی عورت باپردہ نہیں ہوگی عورت کو اسلامی قوانین کے مطابق عزت اور آزادی حاصل ہوگی اور اسی بات پہ لبرل طبقہ اسلام کو عورت کیلیے غیر محفوظ قرار دیتا ہے اور اس کی تشہیر کیلیے عورت مارچ جیسے شیطانی مارچ کرتا یے

اگر شریعت نافذ ہوتی ہے تو جرائم کی کمی ہو گی چھوٹی بچیوں سے زیادتی کو لگام پڑے گی کیونکہ ہمارے لوگ اس کی عبرتناک موت سے ڈرتے ہیں.

جہاں اسلام ایک مکمل دین ہے وہیں اسلام میں قوانین کے خلاف ورزی پہ سخت سزائیں ہیں ہم جمہوری نظام کو ہی رکھنا چاہیں گے کیونکہ ہم معاشرے سے گناہ کی گندگی ختم نہیں کرنا چاہتے رشوت, چور بازاری, زنا, جھوٹ, دھوکہ, فریب اور متعدد گندی بیماریوں میں اُلجھا ہوا یہ معاشرہ صرف افغانستان میں ہی شریعت کا نفاذ چاہتا ہے نا کہ پاکستان میں کیونکہ ہم اسلام سے ڈرتے ہیں اسلامی قوانین سے ڈرتے ہیں ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم منافقت کے کس درجے پہ کھڑے ہیں.

ہم سب کو اپنے ضمیر میں جھانکنا چاہیے کہ کیا ہم مسلمان ہیں؟ اگر ہیں تو اسلام سے کیوں ڈرتے ہیں عمران خان صاحب نے ریاستِ مدینہ کی بات کی تھی لیکن اس پہ عمل طالبان کر کے بازی کے گئے.

اللّہ عالم اسلام کو تمام عالم پہ غالب کرے اور ہم مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بننے کی توفیق دے آمین ثم آمین

Leave a reply