پاکستان میں چائے کی کاشت کا منصوبہ۔ ناکامی یا کامیابی ؟ تحریر:یاسرشہزاد۔


وزیراعظم کے معاون خصوصی جمشید اقبال چیمہ نے ٹی گارڈن شنکیاری مانسہرہ کے دورہ میں باتیں تو بہت کیں لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں جتنا وہ سمجھتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے چائے کی کاشت کو جب تک پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اسلام آباد کے چنگل سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس وقت تک یہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔
کونسل نے یہاں ایک کچھڑی بنا دی ہے۔ یعنی چائے کے ساتھ زیتون کی کاشت اور پھر مختلف پھلوں کے پودوں کی کاشت وغیرہ
بنیادی طور پر زیتون کی کاشت یعنی تیل دار اجناس یا درخت۔ اس کے لئے ایک ادارہ آئل اینڈ سیڈ کارپوریشن ہوتا ہے۔ یہ اس کا کام ہے۔
اسی طرح سبزیات اور پھلوں کے لئے بھی ایک ادارہ فروٹ اینڈ ویجیٹیبل بورڈ ہوتا ہے یہ اس کا کام ہے۔
چائے کے لئے پاکستان ٹی بورڈ ہے یہ اس کا کام ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو فعال کرکے انھیں اس پر کام کرنے دیا جائے۔
پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل اگر چائے میں اتنا ہی مخلص ہے وہ یہ بتائیں کہ پچاس سال میں انھوں نے کتنے رقبہ پر چائے کے باغات لگائے؟
میں اس وقت تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اس کے لئے الگ سے ایک آرٹیکل لکھوں گا یا اپنے صحافی بھائیوں کو بلا کر انھیں اصل حقائق سے آگاہ کروں گا۔
اہم بات یہ ہے کہ معاون خصوصی اپنے دورہ میں اسلام آباد سے صحافیوں کی ٹیم لے کر آئے جو چائے کے حوالے سے کچھ نہیں جانتے۔ جبکہ مقامی صحافیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ شاید معاون خصوصی ڈرتے تھے کہ ان سے اصل سوالات نہ پوچھ لئے جائیں۔
اگر معاون خصوصی ملک کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ دوبارہ یہاں کا دورہ کریں اور مقامی صحافیوں کا سامنا کریں یا کسی چینل پر ہمارے ساتھ لائیو آجائیں ۔
معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل میں اس وقت چائے کا کوئی ایسا ماہر نہیں جو اس چائے کے بارے عملی طور پر معلومات رکھتا ہو۔ یہ بھی عرض کروں کہ معاون صاحب ان لوگوں سے میٹنگ کریں جو اسے سمجھتے ہوں اور وہ لوگ مقامی طور پر موجود ہیں جو 1980 کے بعد سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ جن میں صحافیوں کا کردار کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
بحیثیت مجموعی میں سمجھتا ہوں کہ معاون خصوصی کا یہ دورہ صرف ایک نمائشی دورہ ہوگا۔

https://t.co/qquHD0JKfP‎

Comments are closed.