
اگر پوری دنیا میں ڈیمز کے حوالے سے بات کی جاۓ تو آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو شاید ہمارا دوست ملک جس کی دوستی کی مثالیں ہمارے حکمران ماضی سے لے کر آج حال تک دیتے نہیں تھکتے اور پوری دنیا بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہہ ہماری بہت گہری دوستی ہے اور ہم اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس دوستی سے کیا سیکھا یہ سوچنے کی بات ہے تو جناب سنیں اس ملک کا نام ہے چین دنیا میں اس وقت چین سب سے ذیادہ ڈیم رکھنے والا ملک ہے جس کے کل بڑے ڈیمز کی تعداد لگ بھگ 23 ہزار آٹھ سو ہے اور یہ تعداد بڑے ڈیمز کی ہے اور اگر چھوٹے ڈیمز بھی ساتھ ملا لئے جائیں تو چھوٹے بڑے ڈیمز کی مشترکہ تعداد 87000 کے لگ بھگ ہے. دوسرے نمبر پہ آتا ہے امریکہ جس کے بڑے ڈیمز کی تعداد 9200 ہے اور لگ بھگ ہر ریاست میں 1700 سے ذیادہ چھوٹے بڑے ڈیمز ہیں.
یعنی کل چھوٹے بڑے ڈیمز کی مجموعی تعداد 84000 سے ذیادہ ہے.تیسرے نمبر پر ہمارا پڑوسی لیکن ازل سے دشمن ملک ہے جس کو ہمارے ملک سے سب سے زیادہ تکلیف ہے وہ ہے بھارت جس کے پاس اس وقت بڑے ڈیمز کی تعداد 5200 جبکہ تمام چھوٹے بڑے ڈیمز کی مشترکہ تعداد 9000 تک بتائی جاتی ہے.چوتھے نمبر پر جاپان ہے جس کے پاس 3000 سے ذیادہ ڈیمز ہیں جن میں سے کئی دنیا کے بڑے ڈیموں میں شمار ہوتے ہیں.پانچویں نمبر پر برازیل جس کے پاس 1400 کے لگ بھگ ڈیمز ہیں.چھٹے نمبر پر کوریا پھر کینڈا پھر جنوبی افریقہ اس کے بعد بالترتیب اسپین، ترکی، فرانس، ایران، برطانیہ، آسٹریلیا، میکسیکو، اٹلی، جرمنی، ناروے، البانیہ، زمبابوے، رومانیہ، پرتگال، آسٹریا، تھائی لینڈ، سوڈان، سوئیٹزرلینڈ، بلغاریہ، یونان اور پھر جا کر اس ملک کانام آتا ہے جس کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے اور وہ ملک زراعت پر انحصاربھی کرتا ہے
وہ ملک ہے ہمارا پیارا وطن پاکستان جس کے پاس غالباً چھوٹے بڑے مشترکہ ڈیمز کی تعداد 160 سے 165 ہے.آپ کو شاید حیرانی ہو میری بات سن کر لیکن بدقسمتی سے یہی حقیقت ہے اگر دنیاکی بات کی جاۓ تو دنیا دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہی ہے کیونکہ ڈیمز ہی کسی بھی ملک کی نہ صرف معاشی، زرعی اور صعنتی ترقی کے ضامن ہیں بلکہ حال اور مستقبل میں انہیں ڈیمز کو بطورِ ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے.
اسی لیے ہمارا دشمن ملک بھارت پاکستان کے خلاف ہزاروں ڈیم بنا چکا ہے اور پاکستان کو پانی سے ترسانا ہو یا ڈبونا ہو اپنے ڈیمز کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے جس میں پیارے وطن پاکستان کو زرعی و معاشی نقصان کے ساتھ ساتھ بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.
اگر پاکستان کی بات کی جاۓ تو پاکستان میں دہائیوں پہلے جو ڈیمز بنے سو بنے جن میں اکثریت ڈیموں کے آغاز کا سہرا انہیں صدور کے سر جاتا ہے جنہیں جمہوری قوتیں آمر اور ڈکٹیٹر سمجھتی ہیں، بدقسمتی سے ان آمروں اور ڈکٹیٹرزکے بعد پاکستان میں نام نہاد جہموریت آگئ اور ڈیمز کی تعمیر پاکستان جیسے زراعت پر انحصار کرنے والے ملک کے لئےممنوع ٹھہر ی
اسی وجہ سے پاکستان کو بدترین لوڈشیڈنگ، زرعی اجناس کی کمی، صنعتوں کی بندش کا سامنا ہے جو آج تک پیارا وطن پاکستان اور اس کی عوام بھگت رہی ہے . اور یہ سب ہمیں اس نام نہاد جہموریت سے ملا غور کریں بھارت خود ہزاروں ڈیمز بنا چکا مگر پاکستان میں اپنے پیسے سے پالے ہوئے یہ مافیا سیاستدانوں کو دہائیوں سے اربوں روپے کھلاتا رہا اور یہی سیاستدان کہتے رہے میری لاش پر ڈیم بنے گا یہی جہموری طاقتیں دشمن کہہ پاکستان میں ڈیم نہ بننے کے ایجنڈا کو تقویت دیتی رہی کبھی صوبئیات کے نام پر اور کبھی سیاست کے نام پر ڈیموں کی تعمیر کو متنازعہ بنا کر روکتے رہے.میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور افواج پاکستان کی قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ ان کے ادوار میں ارض پاک پیارے پاکستان میں ڈیموں پر الحمدللّٰہ کام شروع ہوا جو تیزی سے جاری ہے مزید یہ بھئ بتاتا چلوں اگر پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر مزید دس سے بیس سال میں نہ ہوتی تو پاکستان خدا نخواستہ پانی کی بوند بوند کو ترس جاتا.اور یاد رکھیں آنے والے وقتوں کی زیادہ تر جنگیں پانی پر ہونگی جس کے پاس پانی ہو گا وہی طاقت ور اور محفوظ ملک ہوگا ۔
اگر ہم نہے بننے والے ایک ڈیم کی ہی بات کر لیں تو صرف دیامر بھا شا ڈیم سے وزیر اعظم جناب عمران خان کے معاون خصوصی عاصم باجوہ نے اپنے ایک بیان میں کہا دیامر بھاشا ڈیم کے اس منصوبہ سے 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوسکےگا اور ڈیم سے 12 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوسکے گی جب کہ منصوبے سے 4500 میگاواٹ سستی بجلی مل سکے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم منصوبے سے 16ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی اور نیشنل گرڈ کوسالانہ 18 ارب 10 کروڑ یونٹ پن بجلی ملے گی، ملک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے گا جب کہ قومی خزانے کو 290 ارب کا فائدہ ہوگا یعنی سب ملا کر پیارے ہم وطن ساتھیوں ارض پاکستان کو ڈیمز کے فوائد ہی فوائد ہیں
ہماری سابق حکمران جماعتیں ان منصوبوں پر اس لئے بھی عمل نہیں کرتی تھی کہہ یہ منصوبہ ایک تو پانچ سال میں مکمل نہیں ہوتا اور دوسرا اس سے ان کے ووٹ بینک میں وقتی اضافہ نہیں ہوتا
حالانکہ اس طرح کے منصوبے شروع کرنے والے تمام لوگوں جن کا تعلق چاۓ سیاست سے ہو یا آرمی سے یا کسی بھی ریاستی ادارے سے ان کو تاریخ ہمیشہ سنہرے عروف میں یاد رکھتی ہے اور آئندہ بھی رکھے گی
@ChAttaMuhNatt