سابق وزیراعظم کی موت کی افواہ

0
25

سابق وزیراعظم کی موت کی افواہ

باغی ٹی وی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سابق وزیراعظم اور بزرگ سیاستدان میر ظفر اللہ جمالی انتقال کر گئے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کو دل کا دورہ پڑنے پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کی حالت تشویشناک ہے۔ انہیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا، انہیں راولپنڈی کے اے ایف آئی ہسپتال منتقل کیا گیا ہے
ددسری طرف یہ بھی افواہیں زیر گردش تھیں کہ ظفراللہ جمالی ابھی وینٹی لیٹر پر ہیں اور فوت نہیں ہوئے . صدر پاکستان عارف علوی نے ٹویٹ کی ہے . اسی طرح دوسرے صحافیوں نے بھی یہ ٹویٹ کی ہے .


واضح رہے کہ خاندانی ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم میر ظفراللہ جمالی کی آج اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی جس کے بعد ان کواسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں کا کہنا ہےکہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے

یہ بھی کہا گیا تھا کہ میر ظفراللہ جمالی کی حالت تشویشناک تھی دوسری طرف میر ظفراللہ جمالی کے اہل خانہ نے تمام ہم وطنوں سے دعائے صحت کی درخواست کی تھی
واضح رہے کہ ظفر اللہ جمالی پاکستان کے 15ویں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کے گاؤں روجھان جمالی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم روجھان جمالی میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی مری، ایچیسن کالج لاہور اور 1965ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ ظفر اللہ جمالی صوبہ بلوچستان کی طرف سے اب تک پاکستان کے واحد وزیر اعظم ہیں۔ ظفر اللہ جمالی انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر عبور رکھتے ہیں۔

جمالی کی پہچان ایک سنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دان کی رہی ہے۔ وہ روایات کے پابند ہیں جن میں دوستی اور تعلقات نبھانا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے۔

جمالی خاندان قیام پاکستان سے ہی ملکی سیاست میں سرگرم رہا ہے۔ ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔

ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے۔ میر عبد الرحمٰن جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سن اٹھاسی کے بعد سے ان کے آبائی گاؤں روجھان جمالی سے تین وزراء اعلیٰ بلوچستانمنتخب ہو چکے ہیں جن میں تاج محمد کے علاوہ ظفراللہ کے بھتیجے جان جمالی بھی شامل ہیں۔

میر ظفراللہ کے والد میر شاہنواز جمالی پرانے مسلم لیگی رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھائی تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا تھا۔ ظفراللہ کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ دو بیٹے، شاہنواز اور جاوید، پاک فوج میں افسر ہیں جبکہ تیسرے، فریداللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں اور سن ستانوے میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ ان کے قبیلے کا ایک بڑا حصہ بلوچستان کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی آباد ہے۔ یوں ان کا سیاسی اور قبائلی اثر و رسوخ دو صوبوں پر محیط ہے۔

ذو الفقار علی بھٹو، میر جعفر خان جمالی کو اپنا سیاسی مرشد مانا کرتے تھے۔17 اپریل 1967ء کو جعفر خان جمالی کی وفات کے موقع پر جب ذو الفقار علی بھٹو روجھان جمالی گئے تو ظفر اللہ جمالی کے والد شاہ نواز جمالی سے انہوں نے کہا کہ اس گھرانے سے سیاست کے لیے مجھے ایک فرد دے دیجیئے، جس کے جواب میں شاہ نواز جمالی نے ظفر اللہ جمالی کا ہاتھ ذو الفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔ یہی سے ظفر اللہ خان جمالی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رکھا۔[3]

1970ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے۔ 1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔

29ء مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انہیں وزیر ریلوے لگادیا۔ 1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے۔

قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔

اس کے بعد نواب اکبر بگٹی وزیراعلیٰ بنے۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 1993ء میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے۔ 1997ء میں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے ۔

1999ء نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی۔ مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے ۔

انتخابات 2002اکتوبر کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا۔ وزیر اعظم کا انتخاب کئی سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کے بعد عمل میں آیا۔ یہ مرحلہ اس وقت روبہ عمل ہوا جب پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا الگ ہو کر مسلم لیگ (ق) کی حمایت پر آمادہ ہوا۔

جمالی دور میں پرویز مشرف کے حمایتوں اور مخالفین کے درمیان جاری رہنے و الی رسہ کشی ایک سال کے بعد دسمبر 2003ء میں متحدہ مجلس عمل کی مدد سے ستارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد ختم ہوئی۔ متحدہ مجلس عمل اور پرویز مشرف کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ ستارہویں ترمیم منظور کرانے کے بعد پرویز مشرف 31 دسمبر 2004ء تک وردی اتارلیں گے۔ لیکن پرویز مشرف نے یہ وعدہ وفا نہ کیا۔

اپنے وزارت عظمیٰ میں ظفر اللہ جمالی نے کئی وسط ایشیائی، خلیجی ممالک سمیت امریکا کا بھی دورہ کیا۔ بش سینئر سے 90ء کی دہائی میں تعلق قائم تھا۔ پرانے تعلق کو استعمال کرتے ہوئے دورہ امریکا کے دوران صدر بش سے تعلق استوار کیا۔

جمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکام رہے تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انہیں کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا، متحدہ مجلس عمل سے مذاکرات کو چلائے رکھنا بھی ان کی بری کامیابی سمجھی گئی ۔

وزیراعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں خورشید قصوری،فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، شیخ رشید احمد، عبدالستار لالیکا، ہمایوں اختر، کنور خالد یونس، نواز شکور، غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی، اولیس لغاری، سمیر املک اور سردار یار محمد رند شامل تھے۔

وزیر اعظم بننے کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی سمجھے جانے لگے، انھوں نے دورانِ حکومت صدر کی پالیسیوں کی مکمل حمایت بھی کی۔ ظفر اللہ جمالی ہمیشہ ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کے لیے کوشاں رہے اور جمہوریت کی بحالی کی طرف روبہ عمل رہنے کا وعدہ کیا تاہم وہ اپنی یہ پوزیشن برقرار نہ رکھ سکے اور 26 جون 2004ء کو وزیر اعظم کے عہدہ سے مستعفی ہو گئے۔

Leave a reply