پاکستان سٹیل مل کی تباہی کے اسباب و مل کا مستقبل تحریر: ملک حارث

0
62

پاکستان سٹیل مل کی تباہی کے اسباب و مل کا مستقبل
پسِ منظر:
پاکستا ن سٹیل مل ایک سرکاری ادارہ ہے جو ملک کے لیے سٹیل اور ہیوی میٹل مصنوعات تیار کرتی ہے۔ جس کا دفتر کراچی سندھ میں ہے ، مل کی پیداواری صلاحیت 5 ملین ٹن سٹیل اور لوہے کی فاؤنڈریوں کی ہے۔ 1970 کی دہائی میں سوویت یونین کی طرف سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے ساتھ بنائی گئی، اس وقت سے ، اس کی آپریشنل پلانٹ کی گنجائش حکومت کی مالی مدد کے حصول کے بعد 30٪ -50٪ تک جا پہنچی ہے۔ مل پاکستان میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑامل ہونے کے ساتھ دنیا کی چند بڑی اسٹیل ملز میں شمار ہوتا ہے جبکہ اس کی تعمیر کے وقت اس مل کو مزید توسیع دینے کے لیے پہلے سے ہی اسے اس طرح تعمیر کی گئی کہ وقت آنے پر اس کی پیداواری صلاحیت کو دوگنا کیا جا سکے۔

1947 میں قیام پاکستان کے بعدریاست کو ابتداء میں مقامی پیداوار نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی درآمدات پر انحصار نے مشکلات پیداکردی تھی، جس میں لوہا و سٹیل کی وافر درآمدات بھی شامل تھی ، اسی بناء پروزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کو لوہے اور اسٹیل کی مقامی پیداوار کی اہمیت کا احساس ہوا۔ 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کی وجہ سے یہ معاملہ زیر التوٰا ہو گیا،لیکن پھر وزیر اعظم حسین سہروردی اور صدر ایوب خان کی حکومتوں میں اس منصوبے پر جامع بحث ہوئی۔ مینوفیکچرنگ کے عمل ، مطلوبہ مشینری اور خام مال کی فراہمی کے ذرائع ، ملکیت کا تناسب نے کافی وقت کے لئے اس منصوبے کو روک دیا۔ سائنسی اور صنعتی تحقیقاتی کونسل سرکاری سائنسی تھنک ٹین کی 20 سال(1947-1967) کی تحقیق اور مطالعات کے بعد صدر جنرل یحییٰ خان نے سفارشات کو منظوری دے دی، بیوروکریٹس اور سائنس دانوں نے اس متفقہ فیصلے پر اتفاق کیا کہ "کراچی اسٹیل پروجیکٹ” کو سرکاری پبلک سیکٹر میں سپانسر کیا جائے گا۔ 1956 میں سوویت یونین کے وزیر اعظم نیکولائی بلگینن نے وزیر اعظم سہروردی کو اسٹیل ملوں سے متعلق تکنیکی اور سائنسی مدد کی پیش کش کی اور ملک کی پہلی اسٹیل مل کے قیام میں دلچسپی کا اظہار کیا، اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے آخر کار ، جنوری 1969 میں سوویت یونین کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا ،جس میں تعمیر کے لئے تکنیکی مالی مدد فراہم کرنے پر راضی ہوگیااور 1971 میں کراچی میں اسٹیل مل کی تعمیر کا باقائدہ آغاز ہوگیا۔ پاکستان سٹیل مل 2 جولائی 1973 کو عمارتی تعمیرمکمل ہونے کے بعد جدید طریقوں کے مطابق پیداوارکے تحت لوہے اور اسٹیل پیدا کرنے والے ممالک کے ایلیٹ کلب میں شامل ہونے کے لیے 14 اگست 1981 کو بلاسٹ فرنس نمبر 1 کے اجراء کےبعد 24.7 ملین روپے کی لاگت سے اسٹیل مل کا باقاعدہ افتتاح 15 جنوری 1985 کو صدر جنرل ضیاء الحق نے کیا ۔
تباہی کے اسباب:
70کی دہائی میں روس کے تعاون سے تعمیر ہونے والی پاکستان سٹیل مل نے 80 اور 90 کی دہائیوں میں خوب منافع کمایا۔ تاریخ کے مطابق کہ فوجی حکمرانوں کے دور میں سٹیل ملز خوب منافع کماتی رہی مگر سیاسی حکومتوں کے آتے ہی بحران کا شکار ہوگئی۔مل جو سال میں سالانہ 9.54 ارب روپے کا منافع دے رہی تھی ، وہ آج خساروں وقرضوں کے بوجھ تلے بندپڑی ہے،جوکہ صرف نااہل، کرپٹ سیات دانوں کی بندولت ہے۔ مل کی تباہی کی وجوہات میں وزیر اعظم شوکت عزیز کے نجکاری پروگرام کے تحت اسٹیل ملوں کو عالمی نجی ملکیت میں نجکاری دینے کی ایک متنازعہ کوشش کی گئی۔ تاہم ، ان کوششوں کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیا۔ ایک وجہ پیپلز پارٹی کے دور میں ملازمین کی اندھا دھند بھرتیاں بھی ہے۔ وہ مل جسے چلانے کے لیے صرف 9 ہزار ملازمین درکار تھے، وہاں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ملازمین کی تعداد 17 ہزار پر پہنچ گئی۔
اس وقت ملازمین کو بروقت تنخواہ کی ادائیگی ہوتی تھی وہ بھی بمعہ الاؤنس کبھی نہ ہوا کہ تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہو۔ سٹیل مل 90 کی دہائی کے اوائل تک اپنی مکمل صلاحیت پر کام کر رہی تھی ۔ مل کی منافع بخش تاریخ میں خسارہ عثمان فاروقی کی بطور چیئرمین تعیناتی سے شروع ہوا۔عثمان فاروقی سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سلمان فاروقی کے بھائی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں 100 ارب روپے خسارے میں رہی، نواز لیگ کے دور میں سٹیل ملز کو 140 ارب روپے کا نقصان ہوا ۔
مل کے پاس ایک اندازے کے مطابق 10ارب کا خام مال، 12ارب تک کیش اور8ارب کی تیار مصنوعات موجود تھیں۔ لیکن ان تما م اشیا اور رقم کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا یہ راز آج تک راز ہی ہے۔مل کی پیداوار میں کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے 42ارب کا بیل آؤٹ پیکج بھی دیا گیا جو شاید کاغذوں میں ہی تھا ۔ مل کے محنت کشوں کے حالات بد سے بد تر ہونے لگے بعض محنت کشوں نے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے اسٹیل مل کی نوکری کے بعد پارٹ ٹائم نوکریاں کرنا شروع کر دیں۔ زرداری کا اقتدار ختم ہوا اور نواز شریف نے اقتدار سنبھالا۔ نواز شریف نے آتے ہی 75ارب کا حساب طلب کیا یعنی خام مال، تیار مصنوعات اور کیش جو اسٹیل مل کے پاس موجود تھا اور وہ 45ارب جو اس ادارے کو چلانے کے نام پر جاری کیا گیا تھا۔ حساب نہ دے پانے کی بنا پر چند افسران کو گرفتار کرنے کے بعد ایک اور بیل آؤٹ پیکج دیا گیا جس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز نے اپنی پیداواری صلاحیت کا 30فیصد بروئے کار لانا شروع کر دیا۔ یہ ایک اہم نکتہ تھا جہاں اس ادارے کے محنت کشوں نے ثابت کیا کہ وہ اس ادارے کو نہ صرف صرف چلا سکتے ہیں بلکہ ان کی اتنی تکنیکی صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک مردہ ادارے میں جان ڈال سکتے ہیں۔ پیداواری صلاحیت میں جان پڑنے کے بعد محنت کشوں کے حوصلے بلند ہونے لگے جو کہ نجکاری کرنے والے سرمایہ داروں کے پیشہ ور دلالوں اور بیرونی اور اندرونی سرمایہ داروں کے لیے خطرناک تھا۔ اسی لیے جب پیداواری صلاحیت کو 30فیصد تک پہنچایا گیا اسی وقت یعنی جون 2015ء میں گیس سپلائی کرنے والے سرکاری ادارے نے پاکستان اسٹیل مل کو گیس کی فراہمی منقطع کر دی۔ جس کے نتیجے میں اس ادارے کی کارکردگی پھر سے صفر پر آگئی۔ رپورٹ کے مطابق مل سوئی سدرن گیس کمپنی کے 22 ارب روپے کی قرض دار ہے جبکہ نیشنل بینک سے 36.42 ارب روپے کی مقروض ہے ،حکومت نے سٹیل ملز کو برسوں پہلے گیس کی فراہمی روک کر خود اس ادارے کا گلا گھونٹا ہے۔

اسی طرح سے 2008سے اب تک ریٹائر ہونے والے محنت کشوں میں سے 2000سے زائد ایسے ہیں جن کو گریجوئیٹی کی رقم ادا نہیں کی گئی اور نہ ہی پنشن دی جا رہی ہے۔مل وسیع اراضی 18 ہزار ایکڑ پر پھیلی ہے اراضی حاصل کرنے کے لیے بہت سے ادارے ،قوتیں برسرِ پیکار اور پراپرٹی کے بڑے ڈیلرز للچائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اس زمین کی مالیت 500 ارب سے زائد ہے اور یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے اس ادارے کو تباہ کیا گیا ہے تا کہ اس کی اراضی کو حاصل کیا جا سکے۔مل کی بدترین حالت کو دیکھتے ہوئے نیب کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ بربادی کی وجوہات جاننے کے لیے انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ذمہ داران کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے کیا ان ملازمین کے گھروں کے چولہے جل جائیں گے؟ کیا اسٹیل مل کی بند پڑی بھٹیاں پھر سے فولادی مصنوعات کی پیداوار شروع کر دیں گی؟نہیں ان تحقیقات کے ساتھ ساتھ اسٹیل مل کو دوبارہ چلانے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ کیوں کہ اسٹیل مل کے بند ہونے سے کسی ایک یا دو کا نہیں، بلکہ ہزاروں گھرانوں کے چولہے بجھ جائیں گے۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناطے میری ذاتی طور پر موجودہ حکومت سے گزارش ہے کہ سٹیل مل کی نجکاری کے بجائے اروسی سرماکاری کو بروکار لاتے ہوئے پاکستانی ملازمین کے ذریعے سے دوبارہ سے شروع کی جائے،جس سے ناصرف درآمدات میں کمی ہوگئی، بلکہ ملک میں روزگار کے مواقع فراہم ہونے سے بےروزگاری میں کمی ہوگئی، اور قومی خزانہ کے سرمائے میں بھی اضافہ ہوگااور پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہ

Leave a reply