پاکستانی عوام سیاسی جادو گری کا شکار

پاکستانی عوام سیاسی جادو گری کا شکار
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی

پاکستان کی سیاسی فضاء ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے۔ تحریک انصاف اور حکومتی جماعتوں کے درمیان مذاکرات اور الزامات کی کشمکش جاری ہے، جس سے نہ صرف سیاسی منظرنامہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے سیاست کے اصل کردار پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

اڈیالہ جیل میں عمران خان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے رویے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں توقع تھی کہ ڈی چوک کے معاملے کو پارلیمنٹ اور دیگر فورمز پر بھرپور انداز میں اٹھایا جائے گا لیکن ایسا نہ ہونے کی وجہ سے ان کی اپنی جماعت کی فعالیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔ عمران خان کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ پارٹی کے اندرونی مسائل اور قیادت کی حکمت عملی سے مطمئن نہیں ہیں۔

دوسری طرف سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تحریک انصاف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ عرفان صدیقی نے سوال اٹھایا کہ کیا پرامن احتجاج الجہاد اور مارو کے نعروں کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ انہوں نے تحریک انصاف کی جانب سے سول نافرمانی کی دھمکیوں کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ طلال چوہدری نے تحریک انصاف کے رویے پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ان کے اقدامات نے مذاکرات کے دروازے بند کر دیے۔ شیری رحمان نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ملک کی موجودہ صورتحال میں ایسی سیاست کی کوئی جگہ نہیں۔

تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما شیر افضل مروت نے حالیہ سیاسی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حکومت اور ان کی جماعت کے درمیان رابطے موجود ہیں، لیکن عوامی مسائل کے حل کی بجائے یہ رابطے ذاتی مفادات کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے کردار کو بلاوجہ متنازعہ بنایا جا رہا ہے حالانکہ تحریک انصاف کو ان سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کو کسی ایک فرد کی ذمہ داری قرار دینا غیر منصفانہ ہوگا۔

اسی دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق اور تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی۔ ایاز صادق نے تجویز پیش کی کہ جماعتیں اپنے اندرونی مسائل حل کریں تاکہ مذاکرات شفاف انداز میں آگے بڑھ سکیں۔ اسد قیصر نے اس تجویز کو اپنی جماعت میں زیر غور لانے کا وعدہ کیا۔

تحریک انصاف کی طرف سے سول نافرمانی کی کال اور حکومتی رہنماؤں کی سخت تنقید یہ ظاہر کرتی ہے کہ مذاکرات کا عمل شفاف ہونے کے بجائے سیاسی بیان بازی کا شکار ہو رہا ہے۔ حالیہ بیانات میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کا نام باربار لیاجارہاہے جس پر حکومتی رہنماؤں کا الزام ہے کہ وہ تحریک انصاف کے سیاسی مفادات کو آگے بڑھاتے رہے۔ تحریک انصاف نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان میں سیاسی کشمکش نے عوام کو ایک عجیب و غریب سیاسی جادو گری کا شکار بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف ملک کی معیشت بے حد نازک حالت میں ہے وہیں دوسری طرف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے عوامی مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کا مسئلہ پس منظر میں چلا گیا ہے اور سیاستدان اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔

اگر سیاسی قیادت نے اپنی ترجیحات کا ازسرنو جائزہ نہ لیا تو یہ سیاسی سازشیں عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گی۔ اس وقت ملک کو صرف سیاسی افہام و تفہیم کی ضرورت ہے تاکہ عوامی مسائل کو ترجیح دی جا سکے۔ مذاکرات تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جب دونوں فریق اپنے سخت موقف میں نرمی لائیں اور عوام کی تکالیف کو سامنے رکھیں۔ بصورت دیگر یہ سیاسی کھیل ملک کو مزید بحرانوں کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

Comments are closed.