پاکستان کرکٹ،دل کا روگ   تحریر۔سید لعل حسین بُخاری

0
75

جب سے ہوش سنبھالی ہے،اپنے وطن کی جمہوریت اور اپنی کر کٹ ٹیم کی بیٹننگ کو خطرے ہی میں پایا ہے۔

لیکن بیٹنگ والی یہ کہانی ہوئ پرانی،اب تو اکثر باؤلنگ بھی دھوکا دے جاتی ہے۔

جبکہ ہماری فیلڈنگ کی رنگ بازیاں تو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

ابھی ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلی گئی حالیہ سیریز ہی کو لے لیں۔

اس سیریز کا پہلا ٹیسٹ ہمیں جیتنا چاہیے تھا،

مگر اس بہت ہی کلوز میچ کے آخری فیصلہ کن مرحلے میں کئی کیچز چھوڑ کر ہم نے ایک سنسنی خیز میچ ہار کر سیریز جیتنے کا موقع بھی گنوا دیا۔

گزشتہ رات دوسرا اور سیریز کا آخری ٹیسٹ ایک اعصاب شکن مقابلے کے بعد جیت کر ہم نے وہ سیریز بمشکل برابر کر لی،

جو ہمیں آرام سے جیتنی چاہیے تھی۔

اگر دونوں ٹیموں کا موازنہ کیا جاۓ تو پاکستان ٹیم ٹیسٹ کر کٹ کے لحاظ سے ویسٹ انڈیز سے بہت مضبوط نظر آتی ہے۔

ہماری ٹیم کا ہر دور میں مسئلہ رہا ہے کہ ٹیم کا بوجھ محض چند ایک کھلاڑی اٹھاتے ہیں،

بقیہ کھلاڑیوں کی پرفارمنس دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کسی تفریحی دورے میں گئے ہوۓ ہیں۔

جیسا کہ آجکل ٹیم کو مشکلات سے نکالنے کا بیڑا بلے بازی میں بابر اعظم،محمد رضوان اور فواد عالم جبکہ باؤلنگ میں شاہین شاہ آفریدی نے اُٹھا رکھا ہے۔

اس دوسرے ٹیسٹ کی جیت میں فواد عالم کی سنچری اور شاہین شاہ آفریدی کی دس وکٹوں نے اہم کردار ادا کیا۔

اس میچ میں ہمارا مقابلہ ویسٹ انڈیز ٹیم کے ساتھ ساتھ بارش اور خراب موسم سے بھی تھا۔

اس فیصلہ کن ٹیسٹ کو ہم نے 4دنوں میں اپنے حق میں کر کے فیصلہ کن بنانا تھا،

کیونکہ ایک مکمل دن پہلے ہی بارش کی نظر ہو چکا تھا۔

پھر کرتے کراتے جب ٹیسٹ میچ کےآخری دن لنچ کے بعد میچ بارش کے سبب رکا تو ،میچ ڈرا ہونے کے امکانات بھی پیدا ہو گئے تھے،

کیونکہ اس وقت ویسٹ انڈیز کی آخری تین وکٹیں باقی تھیں۔

تاہم ایمپائروں نے اس ٹائم کو کور اپ کرنے کے لئے ٹائم سے پہلے ہی چاۓ کے وقفے میں تبدیل کر کے بہتر حکمت عملی سے میچ کنڈکٹ کیا۔

اس میچ میں قسمت کی دیوی مہربان رہی اور بالاخر آخری سیشن کا میچ شروع ہوا اور پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے آخری تین کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگا کر ملک  کی لاج رکھ لی اور ہم یہ سیریز بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

سیریز ہارنے سے سیریز ڈرا کر لینا بحرحال ایک اچھا شگون ہے،

جو کم ازکم ٹیم کا مورال تو بلند رکھے گا،

جو ہمیں آنے والے ٹی20ورلڈ کپ میں ایک نئی توانائ فراہم کرے گا۔

اس سیریز میں شاہین شاہ آفریدی شہنشاہ آفریدی کے روپ میں نظر آۓ۔

انہوں نے دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 18وکٹیں لیکر پاکستان کی طرف سے ایک نیا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

اس سے پہلے آج تک کوئ بھی پاکستانی تیز باولر دو ٹیسٹ میچوں میں اتنی وکٹیں نہیں لے سکا تھا۔

کارکردگی کے لحاظ سے یہ سیریز عمران بٹ،عابد علی،اظہر علی اور یاسر شاہ جیسے کھلاڑیوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔

جو کھلاڑی ویسٹ انڈیز جیسی قدرے کمزور ٹیم کے خلاف کارکردگی نہیں دکھا سکے،وہ آسٹریلیا،بھارت اور انگلینڈ جیسی تگڑی ٹیموں کے خلاف کیسے کارکردگی دکھائیں گے؟

عمران بٹ نے سیریز میں کیچز کا ریکارڈ قائم کیا،

انہوں نے کئی ناممکن کیچز بھی لئے۔مگر اپنے اصل شعبے یعنی بیٹنگ میں بری طرح نا کام رہے۔

اب رمیز راجہ کے بطور چیئرمین پاکستان کرکٹ بناۓ جانے سے امید پیدا ہوئ ہے کہ اب ٹیم سے سفارش اور اقربا پروری کا کلچر ختم ہو گا اور ٹیم میں صرف اہل کھلاڑی جگہ پانے میں کامیاب ہوں گے،

جبکہ ریلو کٹوں کی چھٹی ہو جاۓ گی_

ٹیم میں کچھ نئے کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

اظہر علی،شعیب ملک اور محمد حفیظ کو اور کتنے مواقع دئیے جائیں گے؟

یہ کھلاڑی ہر بار کسی نہ کسی ڈومیسٹک یا علاقائ ٹورنامنٹ میں اچھی پرفارمنس دکھا کر یاپھر بورڈ کے خلاف بیان بازی کر کے ٹیم میں آجاتے ہیں۔

جیسا کہ ابھی حالیہ دنوں میں ہونے والی کشمیر لیگ میں شعیب ملک نے پھر اچھے رنز بناۓ ہیں،

جس کے بعد اسے پاکستان ٹیم میں دوبارہ شامل کرنے کے لئے لابنگ شروع ہو چکی ہے۔

حتی کہ کپتان بابر اعظم نے بھی شعیب ملک کی واپسی کی درخواست کر دی ہے،

جسے تادم تحریر بورڈ ماننے سے انکاری ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی اچھی پرفارمنس کے حامل کھلاڑی کو ٹیم میں شامل کروانا کپتان کا استحقاق ہوتا ہے،

مگر صرف بڑے نام کی وجہ سے یازاتی تعلقات نبھانے یا کچھ پریشر گروپوں کے زیر اثر آکر کسی کو ٹیم میں ڈالنے کی بات نا مناسب لگتی ہے،

خصوصا” ایک ایسے کھلاڑی کو لانے کی ضد،

جو کئی سیریز میں مسلسل ناکام رہا ہو۔

ہمیں پاکستان ٹیم میں سلیکشن کے معیار کو شفاف بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

پرچی مافیا کی بدولت ٹیم کو پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان پہچ چکا ہے۔

ہماری رینکنگ تینوں شعبوں میں نیچے گر چکی ہے۔

اگر ابھی بھی ٹیم سلیکشن میں شفافیت اور میرٹ آگے  نہ آیا تو پھر کبھی بھی نہیں آۓ گا۔

کیونکہ اس وقت کا وزیر اعظم پاکستان عمران خان بزات خود دنیاکرکٹ کا ایک عظیم کھلاڑی رہا ہے۔

ابھی تک کرکٹ ورلڈ اسے کامیاب ترین کپتان،نمبر ون آل راؤنڈر اور شاندار کھلاڑی کے طور پر جانتی ہے۔

وہی عمران خان جس نے اپنے پورے کیرئر میں ایک بھی نو بال نہیں کروائ وہ کرکٹ بورڈ میں اتنی لوز بالیں کیسے برداشت کر سکتا ہے؟

وقت آگیا ہے کہ بطور پیٹرن انچیف پاکستان کرکٹ بورڈ عمران خان کرکٹ بورڈز کے معاملات بشمول ٹیم سلیکشن اور مالی نظم ونسق کے،

کچھ ایسا کر جائیں،

جس سے دنیا ان کے ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان کرکٹ میں ہونے والی بہتری کے خالق اور موجد کے طور پر بھی اسی طرح یاد رکھے،

جس طرح بطور کرکٹر یاد رکھتی ہے۔

اور جس عمران خان کو میں جانتا ہوں،اسکے لئے کرکٹ بورڈ کے معاملات اور کرکٹ ٹیم کو ٹریک پر لانا کوئ مشکل کام نہیں ہونا چاہیے#

 

تحریر۔سیدلعل حسین بُخاری

@lalbukhari

Regards,

Leave a reply