پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری صرف تین افراد کے سینگوں پر کھڑی ہے محمد احمد

0
22

ٹی وی اداکار محمد احمد کا کہنا ہے کہ ڈرامہ انڈسٹری صرف تین افراد کے سینگوں پر کھڑی ہو ئی ہے-

باغی ٹی وی : مقبول ڈراموں میں میرے پاس تم ہو، سنو چندا، عینی کی آئے گی بارات، عہد وفا، رسوائی اور یہ دل میرا، جلن اور ثبات میں والد کر کردار ادا کرنے والے اداکار محمد احمد خان نے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ کو دیئے گئے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انہیں انڈسٹری کو بدلنے کا ایک موقع دیا جائے تو وہ انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد کی صرف سوچ بدلیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ڈراما انڈسٹری، جن تین افراد کے سینگوں پر کھڑی ہے وہ اپنی سینگ ایک ہی جمائے کھڑے ہوئے ہیں انہوں نے اپنے سینگ یا سوچ صرف ریپ، طلاق اور ناجائز تعلقات جیسے موضوع پر روک رکھی ہے۔

فلم انڈسٹری میں مردوں کو بطور ہیروپیش کیا جاتا ہے جبکہ خواتین کو سازشی چڑیلیں…

محمد احمد کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا مستقبل بھی عزیز ہے اس لیے وہ ان تین افراد کے نام نہیں بتائیں گے لیکن انہوں نے واضح کیا کہ ڈرامہ انڈسٹری مذکورہ تین افراد کے سینگوں پر کھڑی ہے۔

محمد احمد نے مزید بتایا کہ انہیں ہر ڈرامے میں مجبور والد کا کردار دیا جاتا ہے اور انہیں تقریبا ہر ڈرامے میں مرنا بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اب وہ ڈرامہ سازوں سے کام کرنے سے پہلے ہی دریافت کرتے ہیں کہ انہیں کون سی قسط میں مرنا ہے؟

محمد احمد نے انکشاف کیا کہ جلد ہی ان کا ایک ڈرامہ اولاد نشر ہوگا جس میں ان کی موت نہیں ہوگی تاہم مذکورہ ڈرامے کے بعد ایک اور ڈرامہ چلے گا، جس میں ایک بار پھر ان کی موت دکھائی جائے گی۔

پاکستانی ڈراموں میں ان کہانیوں کو ہی دکھایا جاتا ہے جو معاشرے میں موجود ہوتی ہیں…

ڈراموں میں اپنی موت کو دکھائے جانے پر محمد احمد نے مزید بتایا کہ چوںکہ ڈراموں میں ہیروئن کو کمزور اور مظلوم دکھایا جاتا ہے، اس لیے اسے کمزور کرنے کے لیے اس کے سہارے چھین لیے جاتے ہیں، جس وجہ سے ڈراموں میں ان کی موت ہوجاتی ہے تو اکثر ایسے ڈرامیں اور فلمیں ہمیشہ یاد رہتی ہیں کیوںکہ دُکھی اختتام زیادہ یاد رہ جاتا ہے۔

محمد احمد نے کہا کہ ہر سیریل اور ہر اشتہار میں وہی داڑھی وہی گنجا سر، کوئی تبدیلی تو نہیں لا سکا لیکن اب میں کچھ مختلف کردار کرنا چاہتا ہوں جسے دیکھ کر لوگ ہنسیں اور خوش ہوں، میرے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ مجھے اس طرح کے کردار کے لیے ایک دو پیشکش بھی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہ انہیں زیادہ توجہ فلم ‘کیک’ سے ملی جس کے بعد وہ متعدد ڈراموں میں ہیروئنز کے والد بننے لگے اور اب لوگ انہیں ایک والد کا کردار ادا کرنے والے اداکار کے طور پر جاننے لگے ہیں، جنہیں تقریبا ہر ڈرامے میں مرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا انکشاف بھی کیا اور بتایا کہ ماضی میں انہیں ڈرامے لکھنے میں مشکل پیش آئی اور انہیں لوگوں کو یقین دلانا پڑا کہ وہ اب بھی لکھ سکتے ہیں۔

محمد احمد نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں فلم ساز مہرین جبار کے لیے ایک اسکرپٹ لکھا ہے تاہم انہیں احساس ہے کہ مہرین جبار کے منصوبوں کو سرمایہ کار مشکل سے ہی ملتے ہیں۔

مدیحہ امام نے خواتین پر شادی کے لیے دباؤ کو پاکستانی سماج کی حقیقت قرار دیا

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ڈرامہ ساز ندیم بیگ کے لیے بھی ایک اسکرپٹ لکھا ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں محمد احمد نے بتایا کہ وہ بیٹیوں کے والد ہیں اس لیے ان کی اداکاری میں بھی اچھے والد کی جھلک نظر آتی ہے۔

خیال رہے کہ محمد احمد نے بطور لکھاری کیریئر کا آغاز کیا تھا تاہم انہوں نے ڈرامے اور فلمیں لکھنے سمیت اداکاری بھی کہ ہے اور ساتھ ہی وہ شاعری بھی لکھتے رہے ہیں۔

محمد احمد نے نصف درجن فلموں میں بھی کام کیا ہے، جن میں رامچند پاکستانی، تیرے بن لادن، لالا بیگم، مہرالنسا وی لب یو، پنجاب نہیں جاؤنگی، کیک اور لال کبوتر بھی شامل ہیں۔

ڈرامہ سیریل سراب میں ذہنی مریضہ کا کردار نبھانا چیلنج تھا سونیا حسین

Leave a reply