پاکستان کا فیصلہ درست ثابت، بھارت کے خلاف ایران کا بڑا اعلان، اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی

0
31

پاکستان کا فیصلہ درست ثابت، بھارت کے خلاف ایران کا بڑا اعلان، اہم انکشافات مبشر لقمان کی زبانی
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان نے کہا ہے کہ امریکہ میں ہونے والی تبدیلی کے بعد سعودیہ عرب مکمل طور پر حواس باختہ ہوا ہوا ہے اور ایران سعودی حکمرانوں کے سر پر اس حد تک سوار ہے کہ پہلے شاہ سلمان نے ایران کے خلاف بیان دے کر عالمی برادری سے درخواست کی لیکن جب اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو اب محمد بن سلمان خود میدان میں اتر آئے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ مملکت کو دھمکانے والوں اور سیکیورٹی اوراستحکام کے لیے خطرہ بننے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ اور یہ بیان انہوں نے جدہ میں غیرمسلموں کے ایک قبرستان میں ہونے والے حملے کے بعد ہونے والے سعودی مجلس شوری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا ہے۔ یہ دھماکا جس تقریب کے دوران ہوا تھا اس میں فرانس کے علاوہ امریکی، برطانوی، اطالوی اور یونانی سفارت کار بھی موجود تھے۔ اس دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول بھی کی ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ حالانکہ یہ دھماکے دراصل فرانس میں جو گستاخانہ خاکوں کا معاملہ ہوا اس کا reaction ہیں کیونکہ اس سے پہلے جدہ میں واقع فرانسیسی قونصل خانے کے باہر تعینات سیکیورٹی گارڈ پرایک شخص نے خنجر سے حملہ کرکے اسے زخمی بھی کیا تھا۔ لیکن محمد بن سلمان اس حملے کو جواز بنا کر دراصل ایران کے بڑھتے اثرورسوخ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ جس طرح ایرانی وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ ہوا ہے اور اس میں جو پراجیکٹس ڈسکس ہوئے ہیں اگراس پرعملی پیش رفت شروع ہو جاتی ہے تو سعودیہ عرب کا اثرورسوخ پاکستان میں ایک طرح سے بالکل ختم ہو کر رہ جائے گا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اب میں آپ کو کچھ تفصیلات ان پراجیکٹس کے بارے میں بھی بتاتا ہوں جو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف کے ساتھ ملاقاتوں میں ڈسکس ہوئی ہیں۔ایران نے پاکستان کے ساتھ باہمی تعاون وتجارت کے فروغ کے لیے مشترکہ سرحد پرایک نیابارڈر کراسنگ پوائنٹ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ بارڈر کراسنگ پوائنٹ ریمدان کے مقام پر ہو گا جو چاہ بہار بندرگاہ سے 130 کلو میٹر کے فاصلہ پر سیستان اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ جبکہ یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ پاکستان بھی اپنی جانب سے گبڈ کراسنگ پوائنٹ کھول دے تاکہ دونو ں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا جاسکے کیونکہ یہ سبزیوں،پھل،لائیواسٹاک اور پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لیے بہترین مقام ہے۔ ریمدان جدید مواصلاتی سہولتوں سے آراستہ ہے اور جانوروں کورکھنےکے بھی یہاں پر انتظامات ہیں جب کہ پشین مند کا سرحدی راستہ 900 کلو میٹر پاک ایران بارڈر کے درمیان میں ہے۔ ان دو سرحدی راستوں کے کھل جانے سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے مال بردار ٹرک کراچی سے سامان لے کر ایک دن میں ہی ایران میں داخل ہو سکیں گے۔ ساتھ ہی تافتان بارڈر سے داخلے کے لیے جن مال بردار ٹرکوں کواب کراچی سے کوئٹہ جانے ہوتا ہے اور اس میں تین گنا زیادہ وقت لگتا ہے لیکن ریمدان گبڈ کراسنگ کھلنے سے مکران کوسٹل ہائی وے کے راستے سے یہ سفر بھی کم وقت میں طے ہو گا۔ ساتھ ہی دونوں ملکوں کے درمیان نئی سرحدی مارکیٹس کھولنے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی راستوں سے ہونے والی تجارت اس وقت بمشکل 5 ارب ڈالرز ہےجو ان راستوں کے کھلنے سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک تجارت کے فروغ کے لئے ایک جوائنٹ اکنامک کمیشن بنانے پربھی رضامند ہوگئے ہیں۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان نئے سرحدی راستے کھولنے کا معاہدہ 2011 میں طے پایا تھا لیکن سعودیہ عرب کے دباو کی وجہ سے اس پرعمل نہیں ہوسکا تھا۔ اسی طرح دونوں ملکوں کے درمیان کروڈ آئل پائپ لائن،کوئٹہ زاہدان 663 کلو میٹر لمبے ریلوے ٹریک کی اپ گریڈنگ،143 کلو میٹر نوشکی دالبندین ہائی وے کی تعمیر، زاہدان سے کوئٹہ کو 1000 میگا واٹ بجلی کی ترسیل کے لیے ٹرانسمشن لائن جیسے منصوبوں پربھی بات چیت ہوئی تھی لیکن ان پر کام رکا ہوا تھا۔ حالانکہ دو ہزار گیارہ سے تیرہ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی پاکستان اور ایران کے تعلقات پر کافی کام کیا تھا لیکن بد قسمتی سے اس وقت ان منصوبوں پر کام نہ ہو سکا۔ اگر صرف ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر جو کام شروع کیا گیا تھا اس پرہی اگر دوبارہ کام شروع کر لیا جائے اور وہ مکمل ہو جاتا ہے توپاکستان کو ملنے والی گیس بلوچستان میں بڑی تبدیلی لا سکتی ہے۔ اس معاہدہ کے تحت پاکستان کو 750 ملین کیوبک فیٹ گیس روزانہ سپلائی ہو سکے گی جس سے4000 میگا واٹ بجلی روزانہ پیدا ہو سکتی ہے۔ ایران اس وقت بھی 74 میگا واٹ بجلی پاکستان کے سرحدی علاقے مند اور اس کے آپس پاس کے علاقے کو فراہم کر رہا ہے۔اسی طرح پورٹ سٹی گوادر کو 100میگا واٹ بجلی دی جارہی ہے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان نو سو کلومیٹرطویل سرحد ہے جس پر باہمی اعتماد کی وجہ سے فوج تعینات نہیں کی جاتی اس سے دونوں ملکوں کو کئی ملین ڈالرز کی بچت ہوتی ہے۔ لیکن کشیدہ تعلقات کی صورت میں بھارت فائدہ اٹھا کردونوں ملکوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتا جو پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ بنتا ہے۔ ایران کی چاہ بہاربندرگاہ سے بھارت کئی بار ایسی کاروائیاں کرتا رہا ہے۔ لیکن اب اس پر بھی کام ہو رہا ہے حال ہی میں ایران نے بھارت کو اپنے کچھ منصوبوں سے علیحدہ کیا ہے جو ایران اور پاکستان کو مزید قریب لا رہا ہے۔ اور دوسری جانب پاکستان بھی کافی حد تک سعودی دباو سے نکل چکا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سی پیک کی وجہ سے چین جیسا طاقتور ملک بھی پاکستان اورایران کا ساتھ دینے کو تیار ہے یعنی سعودیہ عرب کا دوست ملک بھارت کزور ہو رہا ہے اور چین پاکستان اور ایران کا بلاک مضبوط ہو رہا ہے۔ اور یہی وہ اصل پریشانی ہے جس پر سعودیہ عرب تلملا رہا ہے۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جانب پہلے اگر سعودیہ عرب خود ایران کے خلاف کچھ نہیں بھی کر سکتا تھا تو وہ سارے کام وہ امریکہ سے کرواتا تھا۔ صدر اوباما کے دورمیں جو ایران کےساتھ جوہری معاہدہ کیا گیا تھا جس کے بدلے ایران پر تجارتی سختیاں ختم کرکے جوہری سرگرمیوں پر نگرانی بڑھ گئی تھی۔ اس معاہدے کوصدر ٹرمپ نے بدترین معاہدہ قرار دے کر اس کے لیے امریکی حمایت ختم کر دی تھی اور یہ سب ٹرمپ نے سعودیہ عرب کی محبت اور دوستی میں ہی کیا تھا۔ لیکن اب سعودیہ عرب کو فکر ہے کہ وائٹ ہاؤس دوبارہ تہران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے میں دلچسپی رکھ سکتا ہےجس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ اور اس کے داماد کے دراصل سعودی حکمران شاہ سلمان اوران کے بیٹے محمد بن سلمان کے ساتھ ذاتی تعلقات ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ نے صدر بنتے ہی 2017 میں سب سے پہلا صدارتی دورہ ریاض کا کیا تھا۔ 2018 میں صحافی جمال خاشقجی کا جب قتل ہوا تو ساری دنیا نے محمد بن سلمان کے خلاف آواز اٹھائی لیکن ٹرمپ نے کھل کر کبھی اس معاملے پر بات نہیں کی اور اس معاملے کو ہمیشہ دباتے رہے۔اسی طرح یمن کی جنگ میں بھی صدر اوباما نے امریکی فوج اور خفیہ آپریشنز کے لیے فنڈ روک دیے تھے جس کی وجہ سے سعودیہ کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن ٹرمپ نے اس اقدام کو ختم کرکے یمن میں کارروائیوں کے لیے سعودی عرب کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن اب لگ رہا ہے کہ معاملہ پھر الٹ جائے گا۔ جو بائیڈن نے کونسل برائے خارجی امور کو بتایا تھا کہ وہ یمن میں تباہ کن سعودی جنگ کے لیے امریکہ کی حمایت ختم کردیں گے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیں گے۔ اس کے علاوہ ایک اہم معاملہ قطر کا بھی ہے۔ العدید ایئر بیس جہاں سے امریکہ شام اور افغانستان میں اپنے فضائی آپریشن کرتا ہے اس کی وجہ سے قطر امریکہ کے لئے بہت اہم ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب نے قطر کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ یہ بائیکاٹ شروع ہی تب ہوا تھا جب ٹرمپ نے ریاض کا دورہ کیا تھا۔ کیونکہ سعودیہ عرب کو پتا تھا کہ وہ جو بھی کریں گے انھیں ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوگی۔
لیکن اب محمد بن سلمان جانتے ہیں کہ جوبائیڈن چاہیں گے کہ خلیجی ممالک میں اس اندرونی تنازع کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے اس طرح محمد بن سلمان کو اب اپنی ضد چھوڑ کر ایک بار پھر اپنی سفارتی پالیسی میں تبدیلی کرنی ہو گی۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ محمد بن سلمان جو ٹرمپ کے ساتھ مل کربھارت کے ساتھ جا بیٹھے تھے بھارت کے ساتھ کاروبار بڑھائے گئے تھے تو اب پاکستان بھی پہلے کی طرح سعودیہ کا ساتھ نہیں دے گا۔ اسے اپنے معاملات خود طے کرنا ہوں گے۔ ویسے بھی پاکستان نے مسئلہ کشمیر کی وجہ سے سعودیہ عرب سے کنارہ کیا تھا کیونکہ مسئلہ کشمیر پر سعودیہ عرب پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے بھارت کی حمایت میں خاموش تھا لیکن اب ایران نے پاکستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ تمام معاشی اور تجارتی معاملات کے ساتھ ساتھ کشمیر کے معاملے پر بھی ایران پاکستان کے ساتھ کھڑا ہو گا۔

مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے پتہ یہ چلتا ہے کہ پاکستان نے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے جو فیصلہ کیا تھا وہ بالکل صحیح ثابت ہوا ہے ہمیں کشیمر جیسے معاملے پر اپنے حمایتی حاصل ہو رہے ہیں جبکہ سعودیہ عرب جس نے پاکستان جیسے دوست کو چھوڑ کر بھارت اور امریکہ کا ساتھ دیا تھا وہ اب ٹرمپ کے جانے کہ وجہ سے مشکلات کو شکار ہو گئے ہیں۔

Leave a reply