پاکستان کی معاشی ترقی، امید، چیلنجز اور سوالات

1 مہینہ قبل

پاکستان کی معاشی ترقی، امید، چیلنجز اور سوالات
تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی
پاکستان کی معاشی حالت پر حالیہ دنوں میں جو خبریں سامنے آئی ہیں، وہ بظاہر حوصلہ افزا ہیں۔ عالمی ادارہ فچ کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو ’ٹرپل سی پلس‘ سے ’بی مائنس‘ تک بہتر کیا گیا ہے جو بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ فچ کی رپورٹ میں افراط زر میں کمی، مالیاتی پالیسیوں میں بہتری اور بجٹ خسارے پر قابو پانے کے حکومتی اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ فچ نے پیشگوئی کی ہے کہ پاکستان کی معیشت میں تین فیصد تک کی شرح سے ترقی متوقع ہے اور رواں مالی سال کے اختتام تک بجٹ خسارہ 6فیصد کی سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کی سخت اصلاحات و معاشی اقدامات اور آئی ایم ایف کے ساتھ مؤثر اشتراک کو مثبت پیش رفت قرار دیا گیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہتری زمینی حقائق کی بھی عکاسی کرتی ہے یا صرف اعداد و شمار کی جادوگری ہے؟

وزیراعظم شہباز شریف کا یہ اعلان کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود اس کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ بلوچستان میں شاہراہوں اور کچھی کینال جیسے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا، ایک نئی بحث کو جنم دیتا ہے۔ کیا یہ فیصلہ ریاستی ترقی کی ترجیحات کا درست عکاس ہے یا پھر عوامی ریلیف کی قیمت پر سیاسی و علاقائی ترجیحات کو فوقیت دینا؟ حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کو معاشی کامیابی کے طور پر پیش کیا گیا مگر جب ایندھن جیسی بنیادی ضرورت کی قیمتوں میں ممکنہ کمی روک دی جائے تو عام شہری کے لیے یہ کامیابیاں کس قدر معنی خیز رہ جاتی ہیں؟ کیا پاکستان کا عام فرد واقعی ان پالیسیوں کا براہِ راست فائدہ اٹھا رہا ہے؟

اسی دوران ایک اور اہم پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ رواں سال کے پہلے تین ماہ میں ایک لاکھ 72 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک چلے گئے جن میں اکثریت ہنر مند اور نیم ہنر مند مزدوروں کی تھی جب کہ ڈاکٹرز، انجینئرز، نرسز اور ٹیچرز بھی بڑی تعداد میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اگر ملک میں واقعی معاشی استحکام آرہا ہے تو یہ انسانی وسائل کی مسلسل ہجرت کیوں جاری ہے؟ کیا نوجوانوں کے لیے پاکستان اب بھی ایک امید بھرا مستقبل پیش کرنے میں ناکام ہے؟ کیا یہ رجحان ترقی ہے یا ہمارے معاشی نظام سے فرار کا راستہ؟

ترسیلات زر یقیناً پاکستانی معیشت کا ایک اہم ستون بن چکی ہیں اور بیرون ملک مقیم پاکستانی سالانہ اربوں ڈالر وطن بھیج کر ملکی معیشت کو سہارا دے رہے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای، برطانیہ اور امریکہ سے آنے والی ترسیلات نے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ترسیلات زر کا یہ انحصار ایک پائیدار معاشی ماڈل فراہم کرتا ہے یا یہ صرف وقتی سہارا ہے؟ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس جیسے اقدامات ضرور قابل ستائش ہیں مگر کیا ریاست اس انسانی سرمایہ کو صرف زرِ مبادلہ تک محدود رکھنا چاہتی ہے یا ان کی صلاحیتوں سے داخلی معیشت میں بھی بھرپور فائدہ اٹھانے کا کوئی منظم منصوبہ موجود ہے؟

دوسری جانب بیرونِ ملک پاکستانی کمیونٹیز نہ صرف اقتصادی شعبے میں بلکہ سفارتی اور تعلیمی میدان میں بھی پاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہو رہی ہیں۔ ان کی میزبان ممالک میں سیاسی و سماجی سرگرمیاں، پاکستان کی عالمی شبیہ بہتر بنانے، تعلیمی مواقع فراہم کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ مگر کیا ریاست پاکستان اس ممکنہ طاقت کو قومی ترقی کے دھارے میں مؤثر طور پر شامل کر رہی ہے؟ کیا بیرون ملک پاکستانیوں کو صرف سرمایہ کاری تک محدود رکھنا دانشمندی ہے یا ان کے تجربات، مہارتوں اور عالمی نیٹ ورکس کو بھی قومی پالیسی سازی کا حصہ بنایا جانا چاہئے؟

یہ تمام حقائق مل کر ایک پیچیدہ مگر حقیقت پسندانہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ اگر عالمی ادارے پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو سراہ رہے ہیں اور قرض دہندگان کا اعتماد بحال ہو رہا ہے تو یہ ضرور ایک امید افزا پیش رفت ہے۔ مگر جب تک اس معاشی بہتری کے اثرات براہ راست عام شہری کی زندگی پر مرتب نہیں ہوتے ان کامیابیوں کو مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں کہا جا سکتا۔ مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی کمی اور عوام کی قوتِ خرید میں مسلسل گراوٹ جیسے بنیادی مسائل ابھی بھی موجود ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی معاشی پالیسیاں واقعی دیرپا تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں یا یہ سب محض وقتی ریلیف اور بیرونی دباؤ کے تحت لیے گئے اقدامات ہیں؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ معیشت کے اصل مرکز یعنی عوام کو براہِ راست ان پالیسیوں کے فوائد پہنچائے جائیں اور ترقی کا پیمانہ صرف رپورٹوں اور اشاریوں کے بجائے عام آدمی کی حالتِ زار کو بنایا جائے؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کے واضح اور دیانت دارانہ جوابات ہی پاکستان کو حقیقی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی 2003ء سے اب تک مختلف قومی اور ریجنل اخبارات میں کالمز لکھنے کے علاوہ اخبارات میں رپورٹنگ اور گروپ ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹرکے طورپر زمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں اس وقت باغی ٹی وی میں بطور انچارج نمائندگان اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں

Latest from بلاگ

بھارت میں انسانیت کا قتل عام

بھارت میں انسانیت کا قتل عام تحریر:ڈاکٹرغلام مصطفےٰ بڈانی ایک خبر کے مطابق بھارتی نیوی نے روہنگیا مہاجرین کو بحیرہ انڈمان میں پھینک دیا