پیراڈائز ہوٹل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انوکھی شادی

دین،معاشرے اور اخلاقیات کا زوال

پیراڈائز ہوٹل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انوکھی شادی:دین،معاشرے اور اخلاقیات کا زوال
تحریر:شاہد نسیم چوہدری
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں شورکوٹ روڈ پر واقع دی پیراڈائز ہوٹل میں ایک انوکھی شادی سرانجام پائی ۔۔۔جو ،معاشرے اور اخلاقیات کی پستی کا واضح ثبوت ہے،ارباز نامی لڑکے کی خواجہ سرا میڈم دعا سے سرعام شادی نے پورے علاقے میں ایک ہلچل مچا دی۔ اس شادی کی تقریب میں نہ صرف روایتی رسومات جیسے دودھ پلائی اور رخصتی ادا کی گئیں، نکاح نہیں کرایا گیا۔ رقص و سرود کی محفل بھی سجائی گئی جس میں نوٹ نچھاور کیے گئے اور علاقے بھر کے خواجہ سراؤں نے شرکت کی۔

یہ واقعہ ہمارے معاشرتی، دینی اور اخلاقی رویوں کا آئینہ ہے جو ایک سنجیدہ بحث کا تقاضا کرتا ہے۔اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی :دین اسلام نکاح کو پاکیزگی اور نسل انسانی کی افزائش کے لیے مقرر کرتا ہے، اور اس کے اصول واضح ہیں۔ قرآن و سنت کے مطابق مرد کا مرد سے، عورت کا عورت سے اور مرد کا خواجہ سرا سے شادی کرنا جائز نہیں۔یہ اصول اس لیے ہیں کہ اسلامی معاشرت کی بنیاد خاندانی نظام پر ہے جو نکاح کے دائرے میں رہ کر نسل انسانی کو آگے بڑھاتا ہے۔ خواجہ سرا کی جنس ایک الگ موضوع ہے، لیکن اس شادی نے نہ صرف ان دینی اصولوں کو پامال کیا بلکہ اسلامی اقدار کو بھی مجروح کیا۔شادی کی تقریب میں نکاح کا سرے سے کوئی ذکر نہ ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ شادی ایک غیر سنجیدہ اور شرعی اصولوں کے برعکس عمل تھا۔ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے واضح احکامات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، تو یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

معاشرتی پہلو: تضاد اور زوال ،یہ واقعہ صرف دینی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی زوال کی بھی ایک بڑی علامت ہے۔شادی کی تقریب کے دوران رقص و سرود اور نوٹ نچھاور کرنا خواجہ سراؤں کو تفریح کا ذریعہ بنانے کا مظہر ہے۔ ہم بحیثیت معاشرہ ان کے ساتھ ہمدردی کے بجائے انہیں تماشہ بنا رہے ہیں۔خواجہ سراؤں کے رقص کو سرعام دیکھنا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا اخلاقیات کے زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔اور پھر اس سے شادی کے نام پر ساتھ لے جانا سر عام زناکاری کے زمرے میں آتاہے، یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم اپنی روایات اور اقدار کو نظرانداز کر چکے ہیں۔

معاشرتی طور پر خواجہ سراؤں کو اب تک نہ تو برابری کا درجہ ملا ہے اور نہ ہی ان کے حقوق کی فراہمی ممکن ہو سکی ہے۔ اس کے باوجود ایسے تماشوں میں انہیں مرکز بنا کر پیش کرنا ہمارے دوہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔شریعت اور خواجہ سرا بارے اگر غور کیا جائے تواسلامی تعلیمات خواجہ سراؤں کے ساتھ انصاف اور احترام کا درس دیتی ہیں۔ قرآن و سنت میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ عدل و انصاف کیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرعی اصولوں کو توڑ کر اپنی عیش و عشرت کیلئے ان کے لیے علیحدہ قوانین بنائے جائیں۔خواجہ سراؤں کو ان کے حقوق دینا ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرتی اور دینی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا جائے۔

ارباز اور دعا کی شادی نہ صرف شرعی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ یہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرتی ہے جو معاشرتی انتشار کو جنم دے سکتی ہے۔اس جیسے اعمال دین اسلام کی نظر میں سخت ناپسندیدہ ہیں۔اس تقریب میں یہ عمل سرعام کیا گیا، جو کھلم کھلا گناہ ہے۔نکاح، شادی کی بنیاد اور ایک مقدس معاہدہ ہے، لیکن یہاں نکاح کو نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ عمل معاشرتی اقدار کی پامالی ہے۔

خواجہ سراؤں کو ایسے مقاصد کیلئے تقریبات میں استعمال کرنا شرعی اور اخلاقی طور پر غلط ہے۔ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ معاشرے کی ذمہ داری ہے،یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اصلاح کی طرف بڑھیں۔معاشرے میں دینی تعلیمات کو فروغ دینا اور اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی جائے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

خواجہ سراؤں کے حقوق:خواجہ سراؤں کو ان کے شرعی اور قانونی حقوق فراہم کیے جائیں تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی گزار سکیں۔معاشرے کو خواجہ سراؤں کو انسان سمجھنا اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا سیکھنا ہوگا۔ارباز اور دعا کی شادی نے دینی اور معاشرتی اصولوں کو توڑ کر ہمیں ہمارے زوال کا آئینہ دکھایا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے اعمال کا جائزہ لیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان سے انحراف کرنا صرف دنیاوی نقصان ہی نہیں بلکہ اخروی عذاب کا بھی سبب بن سکتا ہے۔اللہ ہمیں ہدایت دے کہ ہم اپنے اعمال درست کریں، خواجہ سراؤں کو ان کے جائز حقوق دیں، اور دینی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے معاشرتی اصلاح کی طرف بڑھیں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی روایات اور اقدار کو زندہ کریں اور ایسے اعمال سے باز رہیں جو اللہ کے قہر کو دعوت دیں۔

نوٹ : دی پیراڈائز ہوٹل ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ذمہ دار عاصم سے اس شادی بارے معلومات لینے کیلئے فون کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ بات بالکل ٹھیک ہے،یہ واقعہ ایسے ہی ہے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ یہ تقریب کس نے،کس تاریخ کو،کتنے لوگوں کے لئے بکنگ کروائی اور بل کتنا بنا۔۔تو انہوں نے فون بند کردیا اور بارہا رابطہ کرنے پر بھی فون اٹینڈ نہیں کیا۔۔۔۔،

Comments are closed.