
رزق کی تلاش میں وطن سے بے وطن ہونے والے پردیسی لوگوں کے بہت سے دکھ ہیں جہاں انہوں اپنوں سے جدائی کا سامنہ ہوتا ہے وہاں وہ اپنے پیاروں کی خوشی وغمی میں شرکت نہیں کر پاتے
اگر پچھلے دو سال کا جائزہ لیا جائے تو کورونا وبا کی وجہ سے پتہ چلتا ہے کہ مزدور اور اوسط درجے کا کمانے والے اک ہی صف میں نظر آتے ہیں کتنے ہی دوست ایسے ہیں جو یاں تو اپنے پیاروں کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کر پائے کسی کی والدہ تو کسی کے والد کسی کی بیوی تو کسی کے بہن بھائی اور کچھ کے تو بچے بھی اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے پر وہ بچارے یہیں روتے نظر آئے جہاں عموماً ان کو تو تسلی دینے والا بھی کوئی اپنا نہیں ہوتا غیر ہی ہوتے ہیں۔
کچھ تو ایسے نظر آتے ہیں جو بچارے دن رات مزدوری کرتے ہیں اک ہی کمرے میں چھے چھے آٹھ آٹھ لوگ رہتے ہیں اور اپنی کمائی اپنے پیاروں کو ارسال کرتے رہتے ہیں جن میں کچھ تو انکا خیال کرتے ہیں اور جمع کرتے ہیں کہ مشکل وقت میں کام آئے اور کہیں تو انتہائی عجیب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انکے بھجے گئے پیسوں پر عیاشیاں کی جاتی ہیں اور اگر کوئی ان عیاش موصوف سے پوچھے کہ آپ کیا کرتے ہیں تو جواب ہوتا ہے “وڈے پائین / ابا جی باہر ہندے نے”
خدا کیلئے اپنے پردیسی پیاروں کا خیال رکھیں کہ جب وہ جھکی کمر کے ساتھ واپس آئے تو انکو خوشحالی نظر آئے ورنہ یقین کریں پردیسی یہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ ابھی تک وطن میں کچھ نہیں بنا جا کر کیا کرونگا اور یہی سوچتے سوچتے اک دن ختم ہو جاتا ہے اور یقین کریں ہم نے بہت سے تابوت وطن کو روانہ کئے ہیں۔
کچھ کی کہانی تو انتہائی درد ناک ہے کہ جب وہ زندہ سلامت وطن پہنچتے ہیں تو ان کو سننے کو ملتا ہے تو نے ہمارا کیا ہی کیا۔
بچے کہتے ہے جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی تو آپ باہر تھے اب ہمیں آپ کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ وہ اپنے پاؤن پر کھڑے ہو چکے ہوتے ہیں
کاش اسوقت کوئی اس شخص کو سمجھے کہ وہ پردیس گیا ہی کیوں تھا اس نے اپنے بچوں کی خاطر ہی تو اپنا آپ قربان کر دیا ماں، باپ بیوی سے دور رہا پر اسکو سمجھنے کیلئے ان حالات سے گزرنا ضروری ہے
کچھ کے والدین ان کو ان کے حق جائیداد سے یہ کہہ کر مرحوم کر دیتے ہیں کہ تو نے تو بہت کمایا ہے اس لئے جائیداد کا اپنا حصہ تو اپنے بہن بھائیوں کے لئے چھواڑ دے
اور وہ بیچارہ جس نے سب کی زندگی بھر کفالت کی ہوتی ہے اور ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کیا ہوتا ہے اور جس جائیداد کے متعلق مطالبہ کیا جا رہا ہوتا ہے عموماً اس کے بھیجے ہوئے پیسوں سے ہی بنی ہوتی ہے اپنے والدین کی احترام میں یاں تو خاموش ہو جاتا ہے یاں پورے خاندان میں بدنام ہو جاتا ہے کہ دیکھو اتنا کما کر بھی اس کی نظر والدین کی جائیداد پر ہے
لکھنے کو اتنا کچھ ہے کہ تحریر ختم ہی نا ہو کیونکہ جس پردیسی کے پاس بیٹھ جاؤ اس کی الگ ہی داستان ہوتی ہے
اہل وطن سے گزارش ہے کہ آپ کو اللہ پاک کا واسطہ پردیسیوں کے دکھ کو سمجھیں اور انکا احساس کریں
شکریہ