پردیس کی زندگی . تحریر: ثاقب محمود ستی

0
86

اپنوں سے بہت دور پردیس کی زندگی کتنی مشکل ہے وہی لوگ جان سکتے ہیں جو پردیس میں رہ کر آئے ہوں ۔خاص کر وہ لوگ جو پرائے دیس میں مزدوری کے لئے جاتے ہیں ۔ زرا سوچئے اپنے ماں پاب سے دور بیوی بچوں سے دور بہن بھائیوں سے دورپردیس کی زندگی کیسی ہو گی ؟

خدا نخواستہ!
اگر کسی کی موت ہوجائے اور آپ پردیس میں ہیں لیکن آ نہیں سکتے مرنے والا آپکا بہت پیارا ہے ۔ تو آپکے دل پر سے کیا گزرے گی ؟
اگر آپکے کسی پیارے کی شادی ہے گھر میں کوئی خوشی کا موقع ہے اور آپ کسی عرب ملک میں کفیل کے پاس پھنسے ہیں جو آپکو چھٹی نہیں دے رہا تو آپکے دل پر کیا گزرے گی ؟

یقینا” آپ تڑپ جائیں گے ترس جائیں لیکن چارو ناچار کیا کر سکتے ہیں کسی خوشی کے موقع پر یا غم کے موقع پر آپ اپنے پیاروں
کے پاس پہنچ نہیں سکتے ۔ مپردیس کی زندگی کیسی ہے یے پردیسی ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ پردیس میں صبح اٹھنا اپنا ناشتا خود بنانا ۔
پھر ڈیوٹی پر جانا ٹائم سے لیٹ ہو جانے کاڈراگر لیٹ پہنچے تو تنخواہ کاٹ لی جائے گی ۔ ہائے واپس آکر اپنے کپڑے بھی خود دھونے ہیں اپنی ہانڈی روٹی بھی خود کرنی ہے اور اس کے بعد ٹائم نکال کر گھر فون کال بھی کرنی ہے ۔ پورا دن مدیروں کی گر گر سننے کے بعد کچھ سکون کے لئے گھرفون کریں گے تو نئی نئی فرمائشیں تیار ہونگی گھر سے بیوی بچوں کی بہن بھائیوں کی نئی سے نئی ڈیمانڈ پوری کرنی ہیں ۔

لیکن افسوس !
صد افسوس کسی نے یے نہیں پوچھنا کے آپ ٹھیک بھی ہوآپ اتنا کام کرتے ہو کہیں تھک تو نہیں گئے طبیعت تو صحیح ہے آپکی ۔ لیکن نہیں فرمائش ہوگی نئے فون کی ٹیب چاہیے بچوں کے لئے نئے کپڑے کسی نہ کسی رشتہ دار کی شادی آرہی ہے آپ بس پیسے
بھیجتے جاو پیسے بنانے والی مشین بن کے رہوبس ۔ اگر آپ بیمار ہو گئے تو بھی آپ نے اپنا خیال خود رکھنا ہے کیونکہ یہاں اماں جی تو بیٹھی نہیں پردیس ہے ۔ یہاں لوگ یے سمجھتے ہیں کے بیرون ملک میں مقیم ہے بہت کماتا ہے ریالوں میں لیکن پتا اسی کو ہوتا ہے کے کن مشکلات میں رہ کرکماتا ہے ۔ گھر والوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے تین تین سال گھر سے دوررہتا ہے ۔ پرائے لوگوں کی باتیں سنتا ہے اوراپنا ہر کام خود کرتا ہے ۔ پردیس میں مزدوری کرنے کے بعد جب گھر آو تو کچھ دن تو اپنے بیوی بچے بہت خوشی کا اظہارکرتے ہیں لیکن جیسے جیسے دن گزرتے ہیں اور آپ اپنے بچوں کو کسی برے کام سے روکتے ہیں بچوں کو آپ انتہائی برے لگنے لگتے ہیں ہٹلر ٹائپ باپ اچھا بھلا پردیس میں تھا اب گھر آکر ناک میں دم کیا ہوا ہے ۔ پھر چارو ناچار پوچھنا شروع کردیں گے پاپا آپنے واپس نہیں جانا کیا ؟

آپ واپس کب جائیں گے اتنا نہیں سوچیں گے کے ہمارے سکھ کی خاطر اس باپ نے اپنی پوری زندگی پردیس میں کاٹی اب بوڑھا
ہونے کو ہے کچھ آرام کرلے ۔ نلیکن نہیں کس کو احساس ہی پردیس میں میں رہنے والے تو پیسے بنانے کی مشین بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں کم ازکم اپنوں کے ساتھ تو یے ظلم نہیں کرنا چاہیے اپنے پیاروں کا احساس کرنا چاہیے ۔ نمیری گزارش ہے تمام لوگوں سے جن کے پیارے پردیس میں یعنی بیرون ممالک میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوں ۔ ان کا بہت خیال رکھیں اور ان کو فضول ڈیمانڈ نہ کریں جو وہ پوری نہ کرسکیں ۔ جب کوئی بیرون ملک سے فون کرے تو اس کی بات توجہ سے سنیں ۔ تاکہ اس کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ یے آپکے لئے تمام مشکلات جھیل رہا ہے ۔

اللہ پاک تمام پردیسی بھائیوں کی مشکلات آسان فرمائے آمین ۔

@Ssatti_

Leave a reply