پسماندہ سے ترقی پذیر تک: بنگلہ دیش: عمران افضل راجہ

0
23

حصہ دوم:
بنگلہ دیش کی اس حیران کن ترقی کی دو اہم وجوہات نظر آتی ہیں، تعلیم اور
خواتین۔ 1980ء کی دہائی میں تعلیم کی شرح بہت کم تھی۔خاص طور پر  خواتین میں
تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی اور نہ ہی ملکی ترقی میں ان کا کوئی کردار
تھا۔ لیکن حکومت اور سماجیتنظیموں نے تعلیم کے فروغ کے لیے کام شروع کیا ۔ سب
سے زیادہ زور خواتین کی تعلیم پر دیا گیا۔

بنگلہ دیش نے تعلیم نسواں کوعام کیا اور انہیں بااختیار بنایا تو یہی خواتین
بنگلہ دیشی معیشت کا ستون بن گئیں۔ اگر پاکستان بھی اپنیخواتین کو بااختیار
بنانا چاہتا ہے تو اسے بنگلہ دیش کے نقشِ قدم پر چلنا ہوگا بنگلہ دیش کی مثال
کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم (بالخصوصلڑکیوں کی تعلیم) کو فروغ دینے کے لیے
اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تعلیم اور
ملکیترقی میں خواتین کی شمولیت مہمیز کا کام کرتی ہے۔

فی کس آمدنی اور سالانہ شرح ترقی میں وہ ہمیں پہلے ہی بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات41 ارب ڈالر جبکہپاکستان کی 25 ارب ڈالر سے کم ہیں،
 اور بنگلہ دیش کی درامدات 43 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی درامدات 56 ارب ڈالر ہو
 چکی ہیں۔بنگلہ دیش پر کل غیر ملکی قرضہ اس وقت 35 ارب ڈالر کے قریب جبکہ
پاکستان میں 87 ارب ڈالر ہے۔ بنگلہ دیش میں بے روزگاریکی شرح %4 جبکہ پاکستان
میں بے روزگاری %6 کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش کی %33 آبادی صنعتوں سے منسلک ہو چکی
ہے اور  پاکستان کی صرف %20 صنعتوں سے وابستہ ہے۔ اسی طرح تعلیمی اعتبار سے بھی
 ہم بنگلہ دیش سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ عالمیبینک کے مطابق ان کی شرح خواندگی
 74 فیصد جبکہ ہماری 59 فیصد ہے۔

معاشی ترقی حاصل کرنے کے لیے بنگلہ دیش کی حکمت عملیوں میں سے ایک اس کے تعلیمی
 نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا تھا۔ان کے نزدیک تعلیم صرف ڈگری کے حصول کا
ذریعہ نہیں بلکہ اس کا مقصد ایک ایسا نظام بنانا تھا جس کو صنعتی نظام کے ساتھ
منسلک کیا جا سکے اور ہنر مند افراد کی تعداد میں اضافہ ہو۔

بنگلہ دیش کی حکومت انگریزی زبان کی تعلیم، اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ
دینے اور آسٹریلیا ، فرانس ، امریکہ ، جاپان اور جرمنیجیسے ممالک کے ساتھ
تبادلے کے لیے کوشاں ہے۔ حکومت بیک وقت بنگلہ دیش میں غیر ملکی طلباء اور
محققین کی تعداد بڑھانے کیکوشش میں مصروف عمل ہے۔

مرکزی حکومت نے معاشی ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک منصوبہ وضع کیا ، جس کا
بنیادی مقصد جدید صنعت اور سرمایہ کاری کیصلاحیت کو مضبوط بنانا ہے جس نے
صنعتوں کو پیداوار کے حجم کو بڑھانے کی ترغیب دی۔ ریاست نے سبسڈی کے ذریعے کسی
بھی نقصان کو پورا کیا۔ انڈسٹری نرم بجٹ کی پابندی کے تحت چلائی گئیں ۔ ریاست
نے اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کیا۔ کمپنیوں کوپیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے
مختلف قسم کی مفت گرانٹ دی گئی ، جنہیں کیپٹل اسٹاک میں اضافے کے طور پر محسوس
کیا گیا۔

کپاس درآمد کرنے کے باوجود بنگلہ دیش چین کے بعد جنوبی ایشیا کا دوسرا سب سے
بڑا گارمنٹس کا برآمد کار بن چکا ہے، جبکہ کپاسکے معاملے میں خود کفیل ہونے کے
 باوجود ہماری برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

بنگلہ دیش میں  گارمنٹس کی تقریباً 5 ہزار صنعتیں ہیں۔ یہ شعبہ لاکھوں کی تعداد
 میں عوام کو روزگار مہیا کرتا ہے، جن میں سے 80 فیصدخواتین ہوتی ہیں۔

بنگلہ دیش کی صنعتی ترقی نے اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں بہت مدد کی۔
لیکن ہمارے ہاں نئی صنعتیں قائم ہونے کی بجائےپرانی قائم کی گئی صنعتیں بھی ختم
 ہو رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کی کامیابی تمام دنیا کے لیے مثال ہے۔ جہاں ڈھائی کروڑ سے زائد افراد
 کو خط غربت سے نکالنے میں صرف پندرہ ساللگے۔ دنیا اس کامیابی پر حیران ہے۔
مختصر یہ کہ بنگلہ دیش نے اپنے سب سے کم استعمال شدہ اثاثوں یعنی اپنے غریب
طبقے میںسرمایہ کاری کی ہے۔ ان میں تعلیم عام کی، صنعتوں کی طرف راغب کیا۔ اس
دوران حکومت کی توجہ کا تمام تر مرکز پسماندہ اورسب سے کم پیداواری شعبوں پر
رہا کیونکہ وہیں سے سب سے اچھے نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ وہ لوگ محنتی اور
سختیاں برداشتکرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس لیے آگے بڑھنے کی خواہش میں مشکل سے
مشکل کام کر گزرتے ہیں۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ یہیلوگ ملک کا اصل سرمایہ ہوتے
ہیں۔

Imran Afzal Raja is a freelance Journalist, columnist & photographer. He
has been writing for different forums. His major areas of interest are
Tourism, Pak Afro Relations and Political Affairs. Twitter: @ImranARaja1

Leave a reply